بارشوں سے سندھ بھر میں ایک کروڑ لوگ بے گھر، 90 فیصد فصلیں تباہ

حیدرآباد میں سیلاب متاثرین امداد لینے کے لیے قطاروں میں کھڑے ہیں —فوٹو: اے ایف پی

حکومت سندھ نے اعتراف کیا ہے کہ اب تک صوبے میں بارشوں کے باعث ایک کروڑ سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں جب کہ صوبے کے 90 فیصد کسان اپنی تمام فصلوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے بارشوں کے بعد صوبے بھر کے دورے کے دوران سکھر سے جاری کیے گئے اپنے ویڈیو بیان میں بتایا کہ 23 اگست تک صوبے میں ایک کروڑ سے زائد لوگ بے گھر ہو چکے تھے جب کہ صوبے بھر میں کم از کم 15 لاکھ گھر مکمل طور پر منہدم ہو چکے تھے۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے اپنے سلسلسہ وار بیانات میں بتایا کہ اس سال صوبے کے تمام شہروں میں 600 فیصد زائد بارشیں ہوئی ہیں، جس سے سیلابی صورتحال پیدا ہوئی جب کہ ماضی میں بارشوں کے بجائے سیلابوں کی وجہ سے صوبہ متاثر ہوتا رہا۔

سید مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ بارشوں سے صوبے بھر میں کتنے مویشی ہلاک ہوئے، اس کے اعداد و شمار پر بات کرنا فی الحال ناممکن ہے، کیوں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ بارشوں سے بڑی تباہی ہوئی۔

وزیر اعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ بارشوں سے اب تک صوبے بھر میں 300 سے زائد اموات ہو چکی ہیں اور مختلف واقعات میں ایک ہزار سے زائد لوگ زخمی بھی ہوچکے ہیں۔

ان کے مطابق اب تک بارشوں سے صوبے کے 30 سے میں سے 23 اضلاع جب کہ 101 تحصیلیں مکمل طور پر متاثر ہوچکی ہیں، جہاں پانچ ہزار سے زائد یونین کونسلز کے تمام گائوں زیر آب ہیں۔

انہوں نے بارشوں کی تباہی پر حکومتی بے بسی کا بھی اعتراف کیا اور بتایا کہ حکومت کے پاس متاثرین کو فراہم کرنے کے لیے خیمے تک دستیاب نہیں، جتنے صوبائی حکومت کے پاس خیمے موجود تھے، انہیں متاثرین میں تقسیم کردیا گیا۔

 وزیر اعلٰی سندھ نے بتایا کہ اگرچہ حالیہ بارشیں 2010 اور 2011 کی بارشوں سے بھی زیادہ ہوئی ہیں، تاہم اس وقت صوبے کے زیادہ تر روڈ صاف ہیں اور شہروں کو زمینی رابطہ بحال ہے اورمخیر حضرات متاثرہ علاقوں میں جاکر لوگوں کی مدد کر سکتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ 2010 میں سیلاب آیا تو دریا کے دائیں جانب آباد علاقے ڈوب گئے جب کہ 2011 میں بارشیں ہوئیں تو دریا کے بائیں جانے آباد علاقے متاثر ہوئے مگر حالیہ بارشوں سے پورا صوبہ متاثر ہوا ہے۔