سندھ بھر کے صحافیوں اور پریس کلب کی کوئٹہ پریس کلب کی تالابندی کی مذمت

سندھ بھر کے صحافیوں، صحافتی یونینز اور پریس کلبز نے پولیس اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے کوئٹہ پریس کلب کی تالا بندی کی مذمت کرتے ہوئے حکام سے مطالبہ کیا کہ جلد از جلد پریس کلب کو کھولا جائے۔

کراچی پریس کلب کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے ضلعی انتظامیہ کی جانب سے کوئٹہ پریس کلب کی تالہ بندی کے اقدام کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کوئٹہ کے صحافیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے منگل کو یوم سیاہ منانے کا اعلان کیا ۔

صدر کراچی پریس کلب سعید سربازی کی زیر صدارت کراچی پریس کلب کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کااجلاس ہوا۔

اجلاس میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے کنوینر سیکرٹری کراچی پریس کلب شعیب احمد نے ضلعی حکومت کی جانب سےکوئٹہ پریس کلب کی تالہ بندی، وفاقی حکومت کی جانب سے پیکا قانون میں ترامیم اور پنجاب حکومت کی جانب سے ہتک عزت کے قانون میں ترامیم کے بارے میں اجلاس کے شرکاء کوآگاہ کیا ۔

اجلاس میں صدرپاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) جی ایم جمالی، سیکرٹری جنرل پی ایف یو جے دستور اے ایچ خانزادہ، نائب صدر پی ایف یو جے خورشید عباسی، سینئر صحافی و سابق سیکرٹری کراچی پریس کلب مظہر عباس، صدر کے یو جے طاہر حسن خان، جنرل سیکرٹری کے یو جے نعمت خان، صدر پیپ جمیل احمد، جوائنٹ سیکرٹری کراچی پریس کلب محمد منصف اور ممبرگورننگ باڈی نور محمد کلہوڑو سمیت دیگر نے شرکت کی ۔

اجلاس میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی جانب سے کراچی پریس کلب پر سیاہ پرچم لہرانے کا فیصلہ کیاگیا۔

اجلاس کے شرکاء نے کہاکہ کوئٹہ کی ضلعی انتظامیہ کو پریس کلب کے معاملات میں مداخلت کا کوئی حق نہیں۔ یہ عمل آزادی صحافت پر قد غن اور آئین کی خلاف ورزی ہے کیونکہ آئین آزادی اظہار کی ضمانت دیتا ہے، صحافی قیادت نے کہاکہ کوئٹہ پریس کلب کا تقدس پامال کیا گیا، واقعہ میں ملوث ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے، انہوں نے کہا کہ یہ آزادی صحافت اور آئین کے آرٹیکل 19پر حملہ ہے۔

اجلاس میں وفاقی حکومت کی جانب سے پیکا قوانین اور پنجاب حکومت کی جانب سے ہتک عزت کے قانون میں ترامیم پر بھی غورکیاگیا اور دونوں حکومتوں سے ان قوانین کی ترامیم کو فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا۔

جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے اس بات پر زور دیا کہ کوئی بھی قانون اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت اور رضامندی کے بعد ہی متعارف کرایا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ ہتک عزت کے قوانین کو بہتر بنایا جا سکتا ہے اور سختی سے لاگو کیا جا سکتا ہے لیکن اسے مجرم قرار دینے کا مقصد واضح طور پر جعلی خبروں کا مقابلہ کرنے کی آڑ میں آزادی صحافت کو نشانہ بنانا ہے، جس کی ہرسطح پر بھرپور مزاحمت کی جائے گی۔