گھوٹکی کے تین نوجوان مگر روایتی سیاست دان
آج بات کرتے ہیں اس ضلع کی جس کی آبادی 18 لاکھ کے قریب ہے،جو ضلع قدرتی وسائل سے بھرپور ہے،جس ضلع کو سندھ کا دوبئی کہا جاتا ہے،جس ضلع میں سیاسی گہما گہمی عروج پر ہوتی ہے،جہاں پکے کے ڈاکوں کی سرپرستی میں کچے کے ڈاکوں کئی سالوں سے اپنی موج و مستیاں کرتے ہوئے اپنے جوہری ہتھیاروں کی طاقت سے لوگ کو قتل کرنا،چوری کرنا،تشدد کر کہ اغواء برائے تاوان کا بھنگ لینا،اور الیکشن کے دونوں میں سیاسی پنڈتوں کا خوب ساتھ دینا یہ آج سے نہیں کئی سالوں سے معمول ہے، اسی سرزمین پر تقریباً 50 سال سے قبائلی سردار اپنے روبہ و دب دبے اور اپنے خاص افراد کے ساتھ سیاسی طور پر قابض ہیں۔
ہم ذکر کرتے ہیں،ان تینوں نوجوان سیاستدانوں کا جن کا تعلق ان سیاسی خاندانوں سے ہے جو عرصہ دراز سے ہے ضلع گھوٹکی کی سیاست پر اپنے اپنے طور و طریقوں سے قابض ہیں،لیکن ان تین نوجوان سیاستدانوں نے اپنی سیاست کا آغاز الگ طریقے سے کیا جب ان نوجوان سیاستدانوں نے اپنی سیاست کا آغاز کیا ایسے محسوس ہوا جیسے یہ نوجوان 50 سالہ سرداری سسٹم کو شکست دے کر عوامی سیاست کے ذریعے اپنے قبیلوں کے نوجوانوں کو میر، پیر، وڈیروں، سرداروں، کمداروں، بھوتاروں کی غلامی سے نکالنا چاھتے ہیں، جب ان سیاستدانوں نے الگ الگ سیاست کا آغاز کیا تو ضلع گھوٹکی کے نوجوانوں کی توجہ انکی طرف مبذول ہوئی،اور نوجوانوں نے اپنی امیدیں ان سے وابستہ کرنا شروع کر دیں۔
جیسے جیسے وقت گذرتا گیا ان تینوں نوجوان کی سیاست کا انداز بھی بدلنا شروع ہوگیا،ان نوجوان سیاسی سسٹم کو بدلنے کے بجائے اسی سسٹم کا حصہ بننے کو ترجیح دی، صرف ترجیح ہی نہیں دی بلکہ ان نوجوانوں نے اسی اپنے سیاسی خاندانوں کے سسٹم کو فروغ دیا اور اپنے آباء و اجداد کی راہ پر چلتے ہوئے اپنے خاندانوں کے سیاسی جانشینوں کا خوب ساتھ نبھایا۔
بلدیاتی الیکشن سے لے کر جنرل الیکشن تک انہوں نے کئی پر ظاہراً تو کئی پر خفیہ طور طریقوں سے اپنے سیاسی پنڈتوں کا دفاع بھی کیا اور اپنے پالتوں کتوں کے ذریعے پریشر بھی ڈیویلپ کیا جس کے بعد باشعور نوجوان کا ان تینوں نوجوان سیاستدانوں سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔
اب ذکر کرتے ہیں ان نوجوانوں سیاستدانوں کی سیاسی و خاندانی وابستگیاں لیکن اس سے قبل ایک بات قابل غور ہے کہ انہوں تینوں نوجوانوں نے اپنے نام کے ساتھ اسی طرح القابات لگانے کو ترجیح دی جس طرح انکے سیاسی خاندانوں میں دباؤ ڈالنے کے لیے رسم طور پر لگائے جاتے رہے ہیں۔
ان تینوں نوجوان سیاستدانوں کے نام میں میر اور خان شامل ہے یہ تینوں نوجوان سیاستدان خود کو میر اور خان کے القابات سے عوام میں پروموٹ کرتے ہیں،اب بات کرتے ہیں ان کی سیاسی و خاندانی وابستگیوں کی ان میں سے پہلے بات کرتے ہیں میر شعیب خان شر کی جن کا تعلق شر قبیلے سے ہے۔
میر شعیب خان شر
انکے داد کا نام میر احمد یار خان شر تھا جو اپنے قبیلے کے چیف سردار تھے،جو دو بار اپنے حلقے پی ایس 1 سے رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے،انکی سیاست کا الگ ہی باب ہے،دوسرے طرف انکے چچا میر شہریار خان شر جو 2018 میں پاکستان تحریک انصاف کی ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لیا اور اپنے حلقے پی ایس 18 سے رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے۔
بات کریں شعیب شر کی جنہوں نے اپنی سیاست کے آغاز میں بڑے بڑے دعویٰ کئے یہاں تک ایک بیان میں انہوں کہا میں خود الیکشن میں حصہ لوں گا اور بھی کئی باتیں انہوں نے کہیں، ان کے سبھی دعوے دھرے کے دھرے ہی رہے گے اور انہوں نے بلدیاتی انتخابات اور جنرل الیکشن 2024 میں اپنے سیاسی پنڈتوں کی خوب خدمت کی جبکہ یہ کبھی نوجوان کی خدمت کا عزم رکھتے تھے۔
انہوں نے پیپلزپارٹی کے ساتھ خوب ساتھ نبھایا،لسردار خالد لونڈ کی بھی کھل کر حمایت کی اور اپنے چچا شہریار خان شر کا ساتھ بھی خوب نبھایا،اور اپنا نظریہ،عزائم اور ادراے سب سبوتاژ کر دیں،انکے چچا میر شہریار خان شر کی سیاسی بے وفائی کے چرچے بھی قابل ذکر ہیں۔
میر شہریار خان شر نے 2018 میں عمران خان کی ٹیم جوائن کی اور کپتان کے سیاسی کھلاڑی بن گئے جس کے بعد کپتان کی پوری ٹیم نے فائنل اپنے نام کیا جس میں انکا بھی شمار تھا،یہ پہلی بار اپنے حلقے پی ایس 18 سے رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے پھر درمیان سفر کپتان کی ٹیم کو گراؤنڈ سے باہر کر دی گی جس کے بعد میر شہریار خان شر نے درمیان سفر اپنے کپتان سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے اپنی ٹیم کو خیر آباد کر دیا جس کے بعد مفاہمت کے بادشاہ کی سلطنت میں پناہ لے لی اور پھر 2024 کے الیکشن میں آزاد امیدوار نے مفاہمت کے بادشاہ کی سلطنت کے باسی کو شکست دے دی اور پھر وہ نہ تو کپتان کی ٹیم کا کھلاڑی رہا اور نہ ہی مفاہمت کے بادشاہ کی سلطنت کا حصہ رہا۔
میر ہالار خان پتافی
اب بات کرتے ہیں میر ہالار خان پتافی کی جو پتافی قبیلہ کے چیف سردار احمد علی خان پتافی کے فرزند ارجمند ہیں،جو اپنے باپ کی وفات کے بعد نوجوان سیاستدان بن کر ابھرے اور اپنی سیاست کا آغاز کیا،جس نے اپنی سیاست کے آغاز میں اپنے خاندان سے سیاسی راہیں جدا کر لیں،اور کھول کر اپنے بھائی عبدالباری خان پتافی کا سیاسی میدان میں مقابلہ کیا اور کئی کامیابیاں اپنے نام کئی اور ہزاروں نوجوانوں کی دلوں پر راج کرتے ہوئے سب سے نمایاں رہے،پھر وقت بدلتا رہا اور انکے نرالے انداز بھی بدلتے رہے۔
ایک وقت آیا جب انکے بھائی عبدالباری خان پتافی نے 2024 میں اپنے باپ کے سیاسی حریف سردار نادر اکمل خان لغاری کے مدمقابل پاکستان پیپلزپارٹی کی ٹکٹ پر میدان میں اترے،جب انکے بھائی عبدالباری خان پتافی میدان میں اترے تب میر ہالار خان پتافی نے اپنے سیاسی نظریات،نوجوانوں کی امیدیں اور بہت ساری چیزوں کو چھوڑ کر وہ اس سسٹم کا حصہ بنں گے،جس سسٹم کا حصہ انکے والد احمد علی خان پتافی اور انکے بھائی عبدالباری خان پتافی تھے،پھر کیا ہوا،پھر وہی ہوا جو پہلے ہوتا تھا،جو دوسرے سردار کرتے تھے پھر وہی کام باخوبی اس نے بھی انجام دیا اور پیپلزپارٹی کے نظریہ کو خوب پروموٹ کیا،اور اسی کشتی کے سوار بن گے،جس کشتی میں تمام سیاسی پنڈت پہلے سے سوار تھے،پھر انکا نظریہ،انکے دعوے اور نوجوانوں کی امیدیں سب پانی میں بہ گئیں۔
ہالار خان پتافی کے والد احمد علی خان پتافی اپنے حلقے سے 4 بار رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے،احمد علی خان پتافی کے زندگی میں انکے کارنامے بھی بہت تھے جن کو کبھی ذکر کریں گے،جبکہ دوسری طرف انکے بھائی عبدالباری خان پتافی کی بات کریں تو وہ بھی گھوٹکی کے مہر اور لونڈ قبائل کے سرداروں سے کم نہیں ہیں،انہوں نے اپنے دور اقتدار میں خوب پیسا بنایا،2 بار یہ رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے جبکہ صوبائی وزارتوں پر بھی براجمان رہے۔
حالیہ الیکشن 2024 میں آزاد امیدوار سردار نادر اکمل لغاری نے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ ہولڈر عبدالباری خان پتافی کو شکست سے دوچار کیا، نوجوان سیاستدان ہالار خان پتافی نے اپنی سیاسی مستقبل بھی کھو دیا اور اپنے بھائی کی سیٹ بھی حاصل نہ کر سکے۔
میر افتخار لونڈ
اب بات کرتے ہیں سب سے بڑی کھلاڑی میر افتخار احمد خان لونڈ کی جو بظاہر تو کپتان کے کھلاڑی ہیں لیکن جب ٹیم میدان میں فائنل کھیلاتی ہے تب یہ کھلاڑی ٹیم کا حصہ ہوتے ہیں لیکن کھیلتے کسی اور کے لیے ہیں،یہ کھلاڑی کیسے کھیلتے ہیں اس کے انداز نرالے ہیں۔
ان کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے،یہ پارٹی میں مختلف عہدوں پر فائز رہے چکے ہیں،اور یہ کھلاڑی اپنے حلقے کو چھوڑ کر دوسرے حلقے میں جا کر اپنا کھیل پیش کرتے ہیں،پی ایس 21 گھوٹکی سے یہ الیکشن میں حصہ لیتے رہے ہیں۔
جب انہوں نے اپنی سیاست کا آغاز کیا تھا تب یہ نوجوان سیاستدان بھی دوسرے نوجوان سیاستدانوں کی طرح اس نے بھی خوب عوام میں مقبولیت حاصل کی کیونکہ انکا نظریہ سب سے الگ تھا انہوں نے اپنی سیاست کی ابتداء میں خوب جوہر دکھائے،بڑی بڑی تقریریں اور عوامی جلسے انکی سیاست کا بھترین آغاز تھا،لیکن بدقسمتی کے ساتھ یہ نوجوان سیاستدان بھی اپنی عوام اور بالخصوص نوجوانوں کی امیدوں پر پورے نہیں اتر سکے،وقت کے ساتھ ساتھ انکا بھی انداز سیاست تبدیل ہوگیا۔
انہوں نے سیاسی میدان میں خفیہ طریقے سے اپنے خاندان کے سیاسی کھلاڑیوں کے ساتھ خوب نبھایا،ایک وقت تھا جب یہ سندھ ملین مارچ میں حادثہ سے دوچار ہوئے جس کے بعد انکو پاکستان تحریک انصاف میں خوب پذیرائی ملی،جتنا عرصہ یہ نوجوان سیاستدان تحریک انصاف گھوٹکی کی ضلع صدرات پر براجمان رہے اتنا عرصہ انہوں نے اپنے خاندان سے سیاسی یاری خوب نبھائی۔
انکے دور صدرات میں جنرل الیکشن میں اپنے امیدوار اترنا تو دور کی بات بلدیاتی انتخابات میں اترے ہوئے تحریک انصاف کے نوجوانوں کو سپورٹ کرنے کے بجائے دستبردار کروانے میں اپنا کردار خوب ادا کیا،پھر وقت بدل اور 9 مئی کو اس کھلاڑی کے کپتان کو گراؤنڈ سے باہر نکلانے کے لیے گرفتار کر لیا گیا پھر رہا ہوئے پھر زمان پارک لاھور سے گرفتار ہوئے تاحال اڈیالہ جیل میں پابند سلاسل ہیں، 9 مئی کے بعد یہ کھلاڑی منظر عام سے غائب ہونگے،جس کی وجوہات وہ خود بتا سکتے ہیں۔
حالیہ جنرل الیکشن 2024 میں انکے کپتان نے اپنے کھلاڑیوں کو پورے پاکستان میں اترا،جس میں انکا ضلع بھی شامل تھا،ضلع بھر میں تحریک انصاف نے اپنے امیدوار میدان میں اترے، جنرل الیکشن 2024 یہ کھلاڑی پی ایس 21 گھوٹکی سے خود محروم ہوئے یا انکو محروم کر دیا گیا اس کا علم میرے پاس نہیں ہے،اس نوجوان سیاستدان کھلاڑی کی ٹیم کے ایک کھلاڑی نے پہلی بار حلقہ این اے 198 گھوٹکی سے انکے چچا خالد احمد خان لونڈ کے مدمقابل اترے پڑے،جس کی ایک الگ کہانی ہے،حالیہ الیکشن کے دونوں میں اس کھلاڑی نے کسی بھی کھلاڑی کی حمایت نہیں کی الٹا خفیہ طریقوں سے اپنے ہی کھلاڑیوں کی مخالفت کی جس کا نقصان انکی ٹیم کو ہوا۔
الیکشن کی پوری کہانی انکے کھلاڑی ہی بتا سکتے ہیں ہمارا یہ مدعا نہیں ہے،ہم بات کر رہے ہیں اس نوجوان سیاستدان سے وابستہ امیدوں کی جو اس نوجوان سیاستدان نے جانے یا انجانے میں پانی میں بہہ دی،حالیہ دونوں میں ایک بھادر بے باک عوام کی مضبوط آواز انکے کپتان کے نظریہ کے حامی صحافی نصر اللہ گڈانی گڈانی کو دن دھاڑے گولیاں مار زخمی کر دیا جس کے بعد وہ صحافی جمعہ کے روز زخموں کے تاب نہ لاتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے،جس کے قتل کا الزام نوجوان سیاستدان کے کزن اور چچا پر ہے،جس کیس تاحال شروع نہیں ہوسکا وہ ایک الگ باب ہے جس پر ہم کبھی اپنی قلم سے روشنائی ڈالے گے۔
اس نوجوان سیاستدان شھید صحافی کی نہ نماز جنازہ میں شرکت کی اور نہ ہی انکے فیملی کے دکھ میں شامل ہوئے،بلکہ اس نوجوان سیاستدان نے اس کیس کو ایک سیاسی کیس قرار دے کر ڈکے چھپے الفاظ میں قتل کی مذمت کرتے ہوئے اپنے سیاسی خاندان کا خوب دفاع کیا،اتںا ہی نہیں بلکہ یہ نوجوان سیاستدان نے اپنے وہ تمام نظریات و عزائم و ارادے دفن کرتے ہوئے اپنے ضلع کے نوجوانوں کی امیدوں کی کشتی کو پانی میں ڈوب دیا۔
حالیہ دونوں میں پاکستان تحریک انصاف نے انکو سکھر ڈویژن کا صدر مقرر کیا ہے جس کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد ہمارے ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کے ورکرز اور نوجوانوں نے انکی مخالفت کرتے ہوئے اپنے صوبائی صدر حلیم عادل شیخ کو خطوط لکھے دیں ہیں، اب بات کرتے ہیں اس نوجوان سیاستدان کے خاندانی وابستگیوں کی یہ نوجوان سیاستدان لونڈ قبیلے کے سردار گھرانے سے ہے ان کے والد نثار احمد خان لونڈ اپنے قبیلے کے چیف سردار حاجی نور محمد خان لونڈ کے فرزند اور سیاسی جانشین تھے،جن کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ انکے حکم کی تکمیل نہ کرنے والے لوگ اس دنیا میں زیادہ دیر تک رہنے کے قابل نہیں رہتے تھے،ایک قتل کے بدلے میں میاں مٹھو اور انکے ڈاکوں نے میر نثار احمد خان لونڈ کو اپنے ساتھیوں کے ہمراہ گولیاں مار کر قتل کر دیا،جس کے بعد لونڈ قبیلے کے چیف سردار حاجی نور محمد خان لونڈ انکے غم میں کئی عرصہ بیمار رہنے کے بعد اس دنیا سے چل بسے۔
حاجی نور محمد خان لونڈ کا بھی ایک اپنا ہی سیاسی باب ہے جس کا ذکر ہم نے پہلے ایک آرٹیکل میں کیا ہے مزید انکے بارے میں ریسرچ کے بعد قلم کی نوک سے روشناس کریں گے،بات ہو رہی نوجوان سیاستدان کی انکے والد میر نثار احمد خان لونڈ اور انکے داد حاجی نور محمد خان لونڈ کی وفات کے بعد انکے قبیلے کے سیاسی جانشین کے طور پر ایک نئے سیاسی کھلاڑی ابھرے جن کا نام ہے میر خالد احمد خان لونڈ جو اس وقت پاکستان پیپلزپارٹی ایم این ای ہیں،اس نوجوان سیاستدان کا تقریباً پورا خاندان سیاسی طور پر پاکستان پیپلزپارٹی سے وابستہ ہے،جس خاندان کے کئی جو موجود اور سابقہ ادوار میں مختلف عہدوں پر فائز رہے چکے۔
انکا خاندان پیپلزپارٹی کے علاوہ بھی وقتی طور پر دوسروں جماعتوں کے ساتھ بھی وابستہ رہا ہے،سیاسی میدان میں انکے چچا میر خالد احمد خان لونڈ آزاد امیدوار کے طور پر بھی الیکشن میں حصہ لیتے رہے ہیں،اس نوجوان کے خاندان کا سیاسی باب طویل عرصے پر محیط ہے،اس نوجوان سیاستدان کا ایسے سیاسی خاندان اور پورے سسٹم سے بغاوت کرنا جہاد کے مثل تھا،جو سیاسی جہاد ابتداء سیاست کے شروعاتی مرحلے کے بعد اختتام پذیر ہوگیا۔
اپنی تحریر کو اختیام کی طرف لانے سے قبل ایک بات قابلِ ذکر ہے کہ عوامی ایشو پر پر بات کرنے والے گھوٹکی کی مظلوم عوام کی مضبوط آواز بھادر بے باک شھید صحافی نصر اللہ گڈانی کے قتل پر تمام گھوٹکی کے سرداروں کی طرح یہ نوجوان سیاستدان بھی خاموش ہیں جیسا کہ انکی زبانوں پر کسی نے زبردستی سے تالے لگا دیے ہوں۔