تھر میں آسمانی بجلی کیوں گرتی ہے اور اسے گرنے سے کیسے روکا جائے، تفتیش شروع

صحرائے تھر میں آسمانی بجلی کیوں گرتی ہے اور اس کے گرنے کو کیسے کم کیا جا سکتا ہے، اس کے لیے ماہرین کی جانب سے تفتیش شروع کردی گئی۔

صحرائے تھر میں آسمانی بجلی گرنے سے بڑی تعداد میں مویشیوں اور انسانوں کی ہلاکت کے بعد مہران انجینئرنگ یونیورسٹی کے ماہرین کی ٹیم نے تفتیش شروع کردی کہ کس طرح آسمانی بجلی کے گرنے کے بعد نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔

آسمانی بجلی گرنے کے اب تک کے 30 واقعات میں 200 افراد اور ایک ہزار مویشی ہلاک ہوچکے ہیں۔

ٹیم میں پروفیسر زبیر احمد میمن اور الیکٹریکل انجنیئرنگ ڈیپارٹمنٹ سے پروفیسر نور نبی شیخ، پروفیسر نظام الدین بھی شامل ہیں۔

ٹیم نے ضلعی چیئرمن غلام حیدر سمیجو سے ملاقات کی، ایک ماہ کے دوران تھر میں آسمانی بجلی گرنے 30 مختلف واقعات میں 200 افراد اور 1000 سے زائد مویشی ہلاک ہو چکے ہیں۔

ٹیم تھرکول کا بھی جائزہ لے گی کہ اس پلانٹ کی شدید گرمی کی بارش کے بعد ہو سکتا ہے کہ زائد تعداد میں آسمانی بجلی گرنے لگی ہو۔

اس کا جائزہ لینے کے بعد اس آسمانی بجلی گرنے سے بچاؤ کے طریقے کار اور دوسری وجوہات کا جائزہ لینے کے بعد رپوٹ شائع کردی جائے گی اور آسمانی بجلی روکنے کے اقدامات کس طرح کرنے کیلئے حکومت کو رپوٹ بھی پیش کی جائے گی ۔

سندھ کے دیگر علاقوں کے مقابلے تھر میں آسمانی بجلی گرنے کے واقعات زیادہ ہوتے ہیں، جسے ماہرین ماحولیاتی تبدیلی کا سبب بھی قرار دیتے ہیں۔