تاریخ میں پہلی بار، سندھ کی ماہی گیر خواتین کی اسیمبلی و کانفرنس کا انعقاد

ملکی تاریخ میں پہلی بار سندھ کی ماہی گیر خواتین کی جانب سے پہلی فشر فوک اسیمبلی کا اہتمام کیا گیا جو کہ پاکستان فشر فوک کے زیر اہتمام کیا گیا۔

پہلی خواتین فشر فوک اسیمبلی میں سندھ کے مختلف اضلاع سے سینکڑوں ماہی گیر خواتین نے شرکت کی اور حکومت سے اپنے متعدد مسائل پر فوری کارروائی کا مطالبہ کیا۔

ماہی گیر خواتین نے کہا کہ ان کے پیشے کو تسلیم کیا جانا چاہیے اور ان کی موجودگی محسوس کی جانی چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ سندھ کے آبائی باشندے ہیں اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے لے کر انسان ساختہ آفات تک متعدد چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں۔

انہوں نے بھارت میں قید پاکستانی مچھیروں کی فوری رہائی کا بھی مطالبہ کیا اور حکومت سے سندھو دریا سے غیر قانونی پانی کے بہاؤ کو روکنے کا مطالبہ کیا جو ان کی روزی روٹی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔

پاکستان فشر فوک فورم (پی ایف ایف) کی نائب چیئرپرسن یاسمین شاہ نے اسیمبلی سے خطاب میں کہا کہ مچھلی مارنے والی خواتین دن رات اپنے مردوں کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ وہ اپنے خاندانوں کا سہارا ہیں اور موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں میں شامل ہیں۔

انہوں نے وضاحت کی کہ با اثر افراد ان کی روزی روٹی چھین رہے ہیں۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ مچھلی مارنے والی خواتین کو ان کے حق ملنے چاہئیں اور یہ صرف اس صورت میں ممکن ہے جب ہمارے پیشے کو تسلیم کیا جائے۔

اس موقع پر مچھلی مارنے والی برادری کی ثقافتی اور سماجی قدروں کو بھی اجاگر کیا گیا، جس میں مختلف اسٹالوں پر مقامی کھانا، کڑھائی اور طرز زندگی پیش کی گئی۔

چھوٹے لڑکے اور لڑکیوں نے پرفارمنس کے ذریعے ان مشکلات کو اجاگر کیا جن کا ان کے والدین نے برسوں سے سامنا کیا ہے۔

شرکا سے خطاب کرتے ہوئے سندھ انسانی حقوق کمیشن کے چیئرمین اقبال احمد ڈیتھو نے کہا کہ کہ اس وقت تک181 پاکستانی مچھیروں کو بھارتی جیلوں میں قید کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان میں سے 23 مچھیروں تک کوئی کنسولر رسائی نہیں ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ بھارتی حکومت تمام قیدی مچھیروں کو فوری طور پر رہا کرے۔

انہوں نے صوبائی حکومت سے بھی مچھیروں کے بچوں کو سرکاری اسکولوں اور اسپتالوں تک رسائی فراہم کرنے کی اپیل کی۔

انہوں نے کہا کہ میں صوبائی حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ سندھ کے کسانوں کو جاری کردے گئے ماہی گیر کارڈ جاری کرے۔

ساتھ ہی انہوں نے زور دیا کہ مچھلی مارنے والی برادری کی بقاء کے لیے سماجی تحفظ کا نیٹ ورک انتہائی ضروری ہے۔

سماجی کارکن عائشہ دھریجو نے زور دیا کہ مچھیروں، خاص طور پر مچھلی مارنے والی خواتین کی حمایت کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔

انہوں نے کہا کہ سندھو دریا پر نئی نہروں سے مچھلی مارنے والی برادری کی زندگی مزید خراب ہوگی۔

انہوں نے شرکا کو قانون سازوں سے رابطہ کرنے اور اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کی۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کی انوشہ کمال نے بھی مچھلی مارنے والی خواتین کی لچک کو سراہا۔

انہوں نے کہا کہ مچھلی مارنے والی برادری کراچی کی حقیقی شناخت ہے، "لیکن افسوس کہ ان کو نظر انداز کیا گیا ہے۔

ویمن ایکشن فورم کی انیتہ پنچوانی نے بھی اسی خیال کا اظہار کیا کہ ماہی گیر خواتین کی جدو جہد اور کام کو تسلیم کرکے انہیں وسائل فراہم کیے جائیں۔