مقتول ناظم جوکھیو کی بیوہ شیریں جوکھیو پر دیور کا تشدد
گزشتہ سال نومبر میں پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رکن اسمبلی کے فارم ہائوس پر قتل کیے گئے ناظم جوکھیو کی بیوہ شیریں جوکھیوں پر دیور کی جانب سے تشدد کا واقعہ سامنے آنے پر انسانی حقوق کے کارکنان نے غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔
انگریزی اخبار ڈان کے مطابق شیریں جوکھیو پر مبینہ تشدد کا واقعہ 6 اکتوبر کو پیش آیا، جس کے بعد وہ علاج کے لیے جناح اسپتال پہنچیں اور اس حوالے سے پولیس سرجن ڈاکٹر سمعیہ سید نے تصدیق بھی کی۔
پولیس سرجن کے مطابق شیریں جوکھیو شام کے وقت جناح اسپتال علاج کے لیے آئی تھیں، جن کا لیڈی ڈاکٹرز کی ٹیم نے معائنہ کیا اور ان کے جسم پر تشدد کے نشانات پائے گئے، ممکنہ طور پر وہ گھریلو تشدد کا نشانہ بنی تھیں۔
دوسری جانب ’ٹائم نیوز‘ نے اسی حوالے سے بتایا کہ شیریں جوکھیو پر دیور اشفاق احمد جوکھیو نے تشدد کیا، جس کے بعد وہ مذکورہ معاملے کا مقدمہ درج کروانے کے لیے ضلع ملیر کے اسٹیل ٹاؤن تھانے بھی پہنچیں مگر ان کا مقدمہ فوری طور پر درج نہیں کیا گیا اور انہیں ایک کاغذ دے کر اسپتال جانے کا مشورہ دیا گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیاکہ دیور کے تشدد کے بعد شیریں جوکھیو ان کے خلاف مقدمہ دائر کروانا چاہتی تھیں مگر پولیس نے فوری طور پر مقدمہ دائر کرنے سے معذرت کرلی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ شیریں جوکھیو اور ان کے دیور کے درمیان گزشتہ چند ہفتوں سے مبینہ طور پر ملکیت کے معاملے پر تکرار ہے اور دونوں کے تکرار کو مقامی لوگوں نے ختم کرنے کا ایک فیصلہ بھی کیا تھا مگر اس باوجود اب شیریں جوکھیو پر تشدد کا واقعہ سامنے آیا ہے۔
خیال رہے کہ ناظم جوکھیو کی کراچی کے علاقے ملیر میں گزشتہ برس تین اکتوبر کو پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی کے فارم ہاؤس سے ایک شخص کی لاش ملی تھی، جسے مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا گیا تھا۔
میمن گوٹھ کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) خالد عباسی نے بتایا تھا کہ ناظم سجاول جوکھیو کی تشدد زدہ لاش جام ہاؤس نامی فارم ہاؤس سے بدھ کی دوپہر ڈھائی بجے ملی جو ملیر کے جام گوٹھ میں پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی جام اویس کا فارم ہاؤس ہے۔
مقتول کے بھائی اور کراچی کے علاقے گھگر پھاٹک کے سابق کونسلر افضل جوکھیو نے پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی جام اویس اور رکن قومی اسمبلی جام عبدالکریم پر اپنے بھائی کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ناظم جوکھیو کے قاتل گرفتار نہ ہونے کے خلاف سول سوسائٹی کا احتجاج
ان سمیت دیگر رشتے داروں نے یہ الزام ایک ویڈیو کی بنیاد پر لگایا تھا جو ان کے بقول ناظم نے ریکارڈ کی تھی، مذکورہ ویڈیو میں ناظم نے بتایا تھا کہ انہوں نے نے ٹھٹہ کے جنگشاہی قصبے کے قریب اپنے گاؤں میں تلور کا شکار کرنے والے کچھ بااثر افراد کے مہمانوں کی ویڈیو بنائی تھی جس پر انہیں تشدد کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ دھمکیاں بھی دی گئی تھیں۔
ان کے بہیمانہ قتل کے بعد سوشل میڈیا پر صارفین نے غم و غصے کا اظہار کیا تھا، جس کے بعد عدالت نے بھی نوٹس لیا تھا اور بعد ازاں مقتول کے ورثا کی جانب سے مقدمہ بھی دائر کروایا گیا تھا۔
مقتول ناظم جوکھیو کے بھائی افضل جوکھیو نے پی پی پی کے رکن صوبائی اسمبلی جام اویس اور ان کے بڑے بھائی رکن قومی اسمبلی جام عبدالکریم اور ان کے ملازموں کو 27 سالہ ناظم جوکھیو کے قتل میں نامزد کردیا تھا۔
مقتول نے مبینہ طور پر جام اویس کے غیرملکی مہمانوں کو تلور کے شکار سے روکا تھا اور اس کےنتیجے میں انہیں مبینہ طور پر ٹھٹہ میں جام اویس کے فارم ہاؤس میں تشدد کر کے قتل کیا گیا تھا۔
مقدمہ دائر ہونے کے بعد پولیس نے پولیس نے جوڈیشل مجسٹریٹ کو عبوری تفتیشی رپورٹ پیش کی تھی جس میں پاکستان پیپلزپارٹی کے دو اراکین اسمبلی اور ان کے غیرملکی مہمانوں سمیت 23 مشتبہ افراد کو چارج شیٹ میں نامزد کیا گیا تھا، تاہم ان کا کردار واضح نہیں کیا گیا تھا۔
اس کے بعد کچھ گرفتاریاں بھی ہوئیں مگر اصل ملزمان گرفتار نہ ہوئے اور وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے ضمانتوں پر بیرون ملک چلے گئے اور پھر ملک میں سیاسی ہلچل مچنے کے بعد مقتول ناظم جوکھیو کی بیوہ نے قاتلوں کو معاف کرنے کی ویڈیو بھی جاری کی تھی۔
مقتول کی بیوہ کی جانب سے قاتلوں کو معاف کیے جانے کی ویڈیو جاری کرنے کے بعد عدالت میں دوسرا چالان پیش کیا گیا تھا، جس میں مبینہ طور پر یہ بتایا گیا تھا کہ ناظم جوکھیو کا قتل حادثاتی طور پر ہوا تھا۔