گھوٹکی میں افسران کی شہادت، پولیس کا آپریشن جاری

فائل فوٹو: فیس بک

شمالی سندھ کے ضلع گھوٹکی کے تعلقہ رونتی میں چند دن قبل ڈاکوؤں کے حملے میں ڈی ایس پی اور دو ایس ایچ اوز سمیت پانچ اہلکاروں کی شہادت کے بعد پولیس آپریشن کے علاقے میں تاحال
موجود ہے۔
پولیس ذرائع کے مطابق بھاری نفری رونتی کے کچے کے علاقے میں موجود ہے جو کہ خطرناک جرائم پیشہ افراد کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے، اسی حوالے سے آج نیوز نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ علاقے میں آپریشن کے لیے بھاری پولیس نفری موجود ہے اور وہاں کسی وقت بھی گرینڈ آپریشن کیا جا سکتا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ رونتی کا کچہ عام لوگوں سمیت دو دہائیوں سے پولیس کیلئے بھی نو گو ایریا بنا ہوا ہے ، راونتی کے کچے میں ڈاکوؤں کے پاس اینٹی ایئرکرافٹ گنوں ، راکٹ لانچرز سمیت بھاری اسلحہ موجود ہے۔

گھوٹکی میں ڈاکوؤں کا حملہ، ڈی ایس پی، 2 ایس ایچ او سمیت 5 اہلکار شہید

جبکہ کچے کے جرائم پیشہ افراد مختلف اوقات میں سوشل میڈیا پر اسلحہ کی نمائش بھی کرتے رہے ہیں، پولیس پر اس حملے سے پہلے ڈاکو ایس ایس پی گھوٹکی تنویر تنیو کو چلینج کے ساتھ دھمکی بھی دیتے رہے ہیں جب کہ ڈاکو سلطو شر کی ہلاکت کے بعد ڈاکوؤں نے بدلا لینے کی دھمکی بھی دی تھی۔
پولیس جوانوں کی شہادت کے بعد ڈاکو ثناء اللہ شر نے سوشل میڈیا پر پولیس پر حملے کی ذمیواری قبول کرتے ہوئے ڈاکو ثناء اللہ نے پولیس پارٹی پر حملے کو اپنے ساتھی ڈاکو سلطو شر کی موت کا بدلہ قرار دیا، اور کہا کہ ایس ایس پی دفتر میں بیٹھ کر وڈیو بیان جاری کرتا ہے، اس کی جرئت نہیں کہ ہمارا مقابلہ کرے، پولیس خود اسلحہ فراہم کرتی رہی ہے، ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتی۔

مراد علی شاہ نے گھوٹکی واقعے کی رپورٹ طلب کر لی

ڈاکو نے ویڈیو بیان کے ذریعے کہا کہ پولیس دوبارہ ہماری ٹھکانوں کی طرف آئی تو زیادہ نقصان اٹھائے گی پولیس کہتی ہے ہمارے پاس ہتھیار نہیں ہیں کیسے مقابلہ کریں، پولیس کو ہتھیار ہم دیتے ہیں آئیں مقابلہ کریں، ہم نے پولیس اہلکاروں کو شہید کرنے بعد ان کی لاشوں کو قبضے میں نہیں رکھا یہ ہمارا پولیس پر احسان ہے۔
دوسری جانب آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے پولیس افسران کی شہادت کے بعد گھوٹکی پہنچ کر پولیس افسران کو آپریشن تیز کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں مکمل ساتھ دینے کی یقین دہانی کرائی تھی اور احکامات جاری کیے کہ ڈاکوؤں کے خاتمے تک آپریشن کو جاری رکھاجائے۔