جونیئر ذوالفقار اور فاطمہ بھٹو نے انڈس ڈولفن کے تحفظ کا ادارہ قائم کرلیا
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے اور میر مرتضیٰ بھٹو کے بیٹے جونیئر ذوالفقار نے اپنی بہن فاطمہ بھٹو نے دریائے سندھ میں پائی جانے والی نایاب بلہن (انڈس ڈولفن) کے تحفظ کے لیے ادارہ قائم کرلیا۔
انڈس ڈولفن کو سندھی زبان میں بلہن کہا جاتا ہے اور یہ سکھر سے کشمور تک سندھو دریا میں عام پائی جاتی ہے لیکن مقامی افراد اور مچھیرے اسے مچھلی سمجھ کر اس کا شکار کرتے ہیں۔
مقامی لوگ اسے ’اندھی بلہن‘ بھی کہتے ہیں اور ماہرین کے مطابق یہ ڈولفن مچھلی نہیں بلکہ بچے دینے اور بچوں کو دودھ پلانے والی ممالیہ ہے۔
عالمی تنظیم انٹرنینشل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (آئی یو سی این) نے اس صاف پانی کی ممالیہ جانور کو خطرے سے دوچار انواع کی ریڈ لسٹ میں شامل کر رکھا ہے اور عالمی سطح پر انڈس ڈولفن کا شمار دنیا کے نایاب ترین ممالیہ جانوروں میں کیا جاتا ہے۔
انڈیپینڈنٹ اردو کی رپورٹ کے مطابق حیاتیاتی ماہرین کے مطابق ڈولفن عام طور پر سمندر میں پائی جاتی ہے مگر پوری دنیا میں صاف پانی یا دریاؤں میں فقط چند مقامات پر ہی دریائی ڈولفنز پائی جاتی ہیں۔
ان میں بھارت میں گنگا ندی، بولیویا اور برازیل کے درمیان بولوین ندی کی ڈولفن، ایمیزون ندی کی ڈولفن، چین کے دریائے ینگٹز میں پائی جانے والی ڈولفن اور دریائے سندھ کی ڈولفن نمایاں جاتی ہیں۔ ان سب میں انڈس ڈولفن سب سے منفرد ہے کیوںکہ یہ اندھی ہے۔
خطرے کے لحاظ سے چین کے دریائے ینگٹز میں پائی جانے والی ڈولفن، انڈس ڈولفن کے بعد دوسرے نمبر پر نایاب سمجھی جاتی ہے۔
دریائے سندھ میں پائی جانے والی بلہن کے تحفظ کے لیے جونیئر ذوالفقار پہلے بھی کوششیں کرتے رہے ہیں لیکن اب انہوں نے ان کے تحفظ کے لیے ادارہ قائم کردیا، جس کا اعلان انہوں نے انسٹاگرام ویڈیو کے ذریعے کیا۔
جونیئر ذوالفقار نے سندھی اور اردو زبان میں جاری کی گئی ویڈیو میں کہا کہ انہوں نے دریائے سندھ میں پائی جانے والی انڈس ڈلفن جسے سندھی زبان میں ’بلہن‘ کہا جاتا ہے، اس کے تحفظ کے لیے ’بلہن فاؤنڈیشن‘ قائم کی ہے۔
انہوں نے مختصر ویڈیو میں کہا کہ ’بلہن فاؤنڈیشن‘ کا کام صرف اور صرف انڈس ڈولفن کا تحفظ اور ان کی افزائش میں کردار ادا کرنا ہوگا۔
’بلہن فاؤنڈیشن‘ میں جونیئر ذوالفقار اور فاطمہ بھٹو کے علاوہ ان کی دوست منال منشی بھی ان کا ساتھ دیں گی۔
مقامی ماہرین کے مطابق انڈس ڈولفن کی زیادہ تعداد سکھر اور گڈو بیراجوں کے درمیانی علاقوں میں رہتی ہیں۔
انگریزی اخبار ڈان مطابق سال 2017 میں کیے جانے والے آخری سروے میں رپورٹ کیا گیا تھا کہ ایک ہزار 816 ڈولفن دریائے سندھ میں موجود ہیں جبکہ ان کی تعداد کا ایک بڑا حصہ گڈو اور سکھر بیراج کے درمیان 200 کلومیٹر کے حصے میں تھا جسے 1974 میں انڈس ڈولفن ریزرو ہونے قرار دیا گیا تھا۔
اس سے قبل تین سروے کیے گئے تھے 2001 میں کیے جانے والے سروے میں 965 ڈولفنز ہونے کا معلوم ہوا تھا جب کہ 2006 کے سروے میں ایک ہزار 410 اور 2011 میں ایک ہزار 452 ڈولفن کی موجودگی رپورٹ کی گئی تھی۔