جان محمد مہر کے قاتلوں کی عدم گرفتاری پر سندھ بھر میں مظاہرے

دو ہفتے گزر جانے کے باوجود مقتول صحافی جان محمد مہر کے قتل میں نامزد مرکزی ملزمان کو گرفتار نہ کیے جانے کے خلاف سندھ بھر میں مظاہرے جاری ہیں۔

جان محمد مہر کو 13 اگست کو سکھر میں محمد بن قاسم پارک کے قریب مسلح ملزمان نے فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔

قتل کے دو دن بعد ان کے بھائی اکرم اللہ مہر کی مدعیت میں سی سیکشن تھانے میں ان کا مقدمہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت دائر کیا گیا تھا اور پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے 18 اگست تک مجموعی طور پر تین ملزمان کو گرفتار کرکے ان کا ریمانڈ بھی حاصل کیا تھا۔

دو دن بعد جان محمد مہر کے قتل کا مقدمہ درج، 16 ملزمان نامزد

سندھ حکومت نے صحافیوں کے مطالبے پر 17 اگست کو جان محمد مہر کے قتل کی تفتیش کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی تھی، جس نے 19 اگست کو سکھر کا دورہ کرکے اپنی تفتیش کا آغاز کیا تھا جب کہ پولیس مقدمے میں نامزد صرف تین ملزمان کو ہی گرفتار کر سکی ہے۔

مقدمے میں نامزد دیگر مرکزی ملزمان کی عدم گرفتاری کے خلاف سندھ بھر میں مظاہرے جاری ہیں، سکھر، لاڑکانہ، چک، شکارپور، لکھی غلام شاہ، کندھ کوٹ و کشمور، خیرپور، نوشہروفیروز اور حیدرآباد سمیت دیگر شہروں میں بھی صحافیوں کی جانب سے مظاہرے کیے گئے۔

سکھر میں ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) پولیس کے دفتر کے سامنے مظاہرہ کیا گیا، جس میں کاوش اور کے ٹی این کے سینیئر صحافیوں نے بھی شرکت کی۔

جان محمد مہر قتل کیس: جے آئی ٹی ٹیم کا جائے وقوع کا دورہ

علاوہ ازیں سکھر میں ہونے والے مظاہروں میں جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق نے بھی شرکت کی۔

سندھ بھر میں جاری مظاہروں کے دوران صحافیوں اور صحافتی تنظیموں کے عہدیداروں نے پولیس کی سست روی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ملزمان کی عدم گرفتاری پر تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ پولیس کیس کو خراب کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔