سندھ: سیلاب کے بعد لوگوں کا بار بار ملیریا میں مبتلا ہونے کا انکشاف

بدترین سیلاب کے بعد سندھ کے متاثرہ علاقوں سے آلودہ پانی نہ نکالے جانے کی وجہ سے مچھر کے کاٹنے سے بچوں اور خواتین سمیت عام افراد کے بار بار ملیریا میں مبتلا ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔

سندھ بھر میں جون سے اگست 2022 کے وسط تک مسلسل بارشیں ہونے اور دیگر صوبوں سے سیلابی ریلے آنے کے بعد بدترین سیلاب آیا تھا، جس سے صوبے کے 30 میں سے 24 اضلاع متاثر ہوئے تھے جب کہ لاڑکانہ، سکھر اور نوابشاہ ڈویژن کے متعدد اضلاع انتہائی بری طرح متاثر ہوئے تھے۔

سندھ میں سیلاب سے تباہ ہونے والے 18 لاکھ مکانات کی بحالی کے لیے 15 کھرب درکار

اندازوں کے مطابق سندھ میں ایک کروڑ سے زائد افراد سیلاب سے متاثر ہوئے تھے جب کہ صوبے بھر میں 20 لاکھ سے زائد مکانات تباہ ہوئے تھے۔

سیلاب سے سندھ کے متعدد دیہات مکمل طور پر منہدم ہوگئے تھے جب کہ خیرپور ناتھن شاہ (کے این شاہ) سمیت گاجی کھاوڑ اور دیگر چھوٹے شہر اور قصبے مکمل طور پر ڈوب گئے تھے۔

سیلاب کو پانچ ماہ گزر جانے کے باوجود متاثرہ اضلاع میں پانی نہ نکالے جانے کی وجہ سے صوبے بھر میں مچھروں کے کاٹنے سے پھیلنے والی بیماریوں (borne diseases) سے لاکھوں افراد متاثر ہوچکے ہیں اور ہزاروں افراد کے بار بار ملیریا میں مبتلا ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔

سیلاب: سندھ کے سوا کروڑ لوگ متاثر، 73 لاکھ بے گھر، 28 ہزار اسکول تباہ، 1100 اسپتالیں متاثر

سیلاب سے متاثرہ ضلع شکارپور کی تحصیل لکھی غلام شاہ کے متعدد دیہات کے افراد نے سندھ میٹرز کو بتایا کہ ان کے دیہات میں ملیریا عام ہوچکا ہے اور ہر گھر کے تین افراد اس میں مبتلا ہیں جب کہ ایک بار ملیریا سے صحت یاب ہونے کے بعد متاثرہ شخص دوبارہ بھی اسی میں مبتلا ہو رہا ہے۔

تحصیل لکھی غلام شاہ کے گاؤں قادر ڈنو مہر کے نوجوان میر محمد نے بتایا کہ ان کے گھر کے نصف سے زائد افراد بیمار ہیں اور وہ گزشتہ دو ماہ سے مسلسل بخار میں مبتلا ہیں۔

ان کے مطابق انہوں نے اہل خانہ کے بیمار افراد کا متعدد بار ‘پیپلز پرائمری ہیلتھ کیئر‘ (پی پی ایچ آئی) سے ٹیسٹ کروایا ہے اور ہر بار ان کے بیمار افراد میں ملیریا کی تشخیص ہوتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے بیمار اہل خانہ ملیریا کی ادویات لینے کے بعد دو ہفتے تک صحت یاب رہتے ہیں لیکن اس کے بعد دوبارہ وہ بخار میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور دوبارہ ٹیسٹ کروانے پر ان میں ملیریا کی تشخیص ہوتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ملیریا سے بار بار کم عمر افراد، بچے اور خواتین زیادہ متاثر ہو رہی ہیں، تاہم ادھیڑ عمر کے مرد حضرات بھی بار بار ملیریا کا شکار ہو رہے ہیں۔

اسی تحصیل کے ایک اور قصبے بورڑی شریف میں ایک کلینک ہے، جہاں آس پاس کے علاقوں کے درجنوں افراد علاج کے لیے آتے ہیں اور ڈاکٹر کے مطابق زیادہ تر افراد بخار، جسم میں درد اور سردی کی شکایات کے ساتھ آتے ہیں۔

ڈاکٹر کے مطابق سیلاب کے بعد سندھ حکومت نے ان کے کلینک کے قریب پی پی ایچ آئی کی عارضی لیبارٹری قائم کی ہے، جس سے بخار میں مبتلا ہر مریض کا پانچ دن کے اندر صحت یاب نہ ہونے پر ٹیسٹ کروایا جاتا ہے اور حیران کن طور پر تمام افراد میں ملیریا کی تشخیص ہوتی ہے۔

کریڈٹ: رائٹرز

انہوں نے بھی تصدیق کی کہ بعض افراد میں ہر چند ہفتوں بعد دوبارہ ملیریا کی تشخیص ہوتی ہے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ملیریا میں بار بار مبتلا ہونے کی مختلف اور متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملیریا کی بعض قسمیں ماحول کے ذریعے بھی پھیلتی ہیں جب کہ متاثرہ افراد کی جانب سے مکمل طور پر درست انداز میں علاج نہ کروانا بھی ملیریا کے بار بار ہونے کا ایک سبب ہوسکتا ہے۔

شکارپور کے ہی گوٹھ عظیم سہندڑو کے محمود علی نے بتایا کہ ان کے گاؤں کے ہر گھر میں تین سے چار افراد ملیریا بخار میں مبتلا ہیں، جن میں سے زیادہ تر افراد گزشتہ چند ہفتوں سے اسی بخار میں مبتلا ہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ بیمار افراد پر ملیریا کی ادویات ہی اثر نہیں کر رہیں یا پھر انہیں درست دوائیاں نہیں دی جاتیں، جس وجہ سے وہ صحت یاب نہیں ہو رہے اور انہیں بار بار بخار ہوجاتا ہے۔

حکومت پاکستان کے ملیریا سے تحفظ کے پروگرام ڈائریکٹوریٹ آف ملیریا (ڈی ایم سی) کے مطابق ملک میں سیلاب کے بعد ملیریا کیسز میں نمایاں اضافہ ہوا اور جولائی 2022 میں ملک بھر میں 56 ہزار کے قریب کیسز رپورٹ ہوئے جب کہ اگست میں ایک لاکھ 75 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے۔

کریڈٹ: ڈائریکٹوریٹ آف ملیریا

 

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق سال 2022 میں سب سے زیادہ اکتوبر میں ملیریا کیسز رپورٹ ہوئے جن کی تعداد 3 لاکھ 77 ہزار سے زائد تھی اور دسمبر میں 2 لاکھ سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے۔

پاکستان میں سیلاب کے بعد آخری چند ماہ میں 10 لاکھ کے قریب ملیریا کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں سے زیادہ سندھ اور بلوچستان میں ریکارڈ کیے گئے۔

اقوام متحدہ (یو این) کی رپورٹ کے مطابق نومبر 2022 تک پاکستان کے سیلاب متاثرہ علاقوں میں 80 لاکھ سے زائد سیلاب متاثرین کو بروقت طبی امداد کی ضرورت تھی اور سیلاب متاثرہ علاقوں کے زیادہ تر افراد خراب پانی کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔

رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ نومبر تک پاکستان میں ملیریا کے 5 لاکھ سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے تھے، جن میں سے زیادہ تر کیسز صوبہ سندھ کے تھے۔

سیلاب کے بعد متاثرہ علاقوں سے پانی نہ نکالے جانے کی وجہ سے جہاں مچھروں کے کاٹنے کے بعد پھیلنے والی بیماریوں بڑھ رہی ہیں، وہیں لوگ ہیضے اور پیٹ کی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں اور حکومت عالمی امداد ملنے کے باوجود تاحال بڑے پیمانے پر کوئی حفاظتی سرگرمیاں شروع کرنے میں ناکام رہی ہے۔

سندھ بھر میں سیلاب متاثرہ علاقوں میں اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں اور تنظیموں سمیت دیگر عالمی تنظیمیں بحالی کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں اور وہ متاثرہ افراد کو بروقت طبی امداد بھی فراہم کر رہی ہیں جب کہ صوبائی سمیت وفاقی حکومت کی طبی ٹیمیں بھی مختلف علاقوں میں کیمپس لگانے میں مصروف ہیں لیکن اس باوجود پھیلتی بیماریوں پر قابو پانے میں حکام مشکلات کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔

کریڈٹ: یونیسیف