سانحہ مچھر کالونی کے 34 کے بجائے 11 ملزمان گرفتار کیے جانے کا انکشاف
فائل فوٹو: فیس بک
دارالحکومت کراچی کے ضلع کیماڑی کی مچھر کالونی میں دو ٹیلی کام ملازمین کو ڈنڈوں، پتھروں اور راڈوں سے تشدد کرکے ہلاک کرنے والے کیس میں پولیس کی جانب سے 34 کے بجائے 11 ملزمان کو گرفتار کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے جب کہ پولیس نے عدالت سے محض 4 ملازمین کا ریمانڈ حاصل کیا ہے۔
ھٹہ کے انجنیئر ایمن جاوید اور نوشہروفیروز کے اسحٰق مہر کو مچھر کالونی میں مشتعل افراد نے تشدد کرکے 28 اکتوبر کو ہلاک کردیا تھا، پولیس کے مطابق انہیں اغوا کار سمجھ کر علاقہ مکینوں نے ہلاک کیا۔
دونوں افراد مچھر کالونی میں انٹینا چیک کرنے گئے تھے کہ ایک بچے سے راستہ معلوم کرنے پر لوگوں نے انہیں اغوا کار سمجھ کر ان پر حملہ کردیا تھا۔
پولیس کے مطابق دونوں پر 500 سے 600 افراد نے حملہ کیا اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہوگئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: مچھر کالونی میں تشدد سے 2 افراد کو ہلاک کرنے کے الزام میں 34 افراد گرفتار
بعد ازاں مقتولین کے ورثا کی فریاد پر مقدمہ دائر کیا گیا تھا، جس میں 200 سے زائد افراد کو نامزد کیا گیا تھا، جس کے بعد پولیس نے 29 اور 30 اکتوبر کو مچھر کالونی میں آپریشن کرتے ہوئے 40 افراد کو گرفتار بھی کرلیا تھا، جس میں سے بعض کو پولیس نے بعد ازاں رہا کردیا تھا۔
پولیس نے ابتدائی طور پر دعویٰ کیا تھا کہ اس نے مختلف کارروائیوں کے دوران 34 سے 40 ملزمان کو گرفتار کیا ہے، تاہم پولیس نے 31 اکتوبر کو عدالت میں صرف 4 ملزمان کو پیش کیا۔
انگریزی اخبار ڈان کے مطابق ڈاکس پولیس نے گرفتار کیے گئے 4 ملزمان کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں پیش کیا، عدالت نے ملزمان کو ایک ہفتے کے ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔
عدالت کو بتایا گیا کہ پولیس نے محمد فاروق، رب الاسلام، فیصل اور عبدالغفور کے علاوہ دیگر 11 افراد کو اقدام قتل، جان بوجھ کر آگ لگانا، تشدد اور دہشت گردی پھیلانے کے مقدمے میں گرفتار کر رکھا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مچھر کالونی میں 2 ملازمین کے قتل میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کیلئے آپریشن
تفتیشی افسر نے جج سے درخواست کی کہ ملزمان کو 14 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دیا جائے تاکہ تفتیش اور دیگر قانونی کارروائی عمل میں لائی جا سکے۔
تاہم جج نے ایک ہفتے کا جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے ملزمان کو پولیس کے حوالے کر دیا، عدالت نے تفتیشی افسر کو ہدایت کی کہ انہیں اگلی سماعت پر تفتیشی رپورٹ کے ساتھ پیش کیا جائے۔
یاد رہے کہ مقتول محمد اسحٰق کے چچا محمد یعقوب کی شکایت پر ڈاکس پولیس اسٹیشن میں 200 سے 250 افراد کے خلاف مقدمہ درجہ کیا گیا ہے، مقدمے میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 302 (اقدام قتل)، دفعہ 147 (فساد کی سزا)، دفعہ 148 (فساد، مہلک ہتھیاروں سے لیس)، دفعہ 149 (ایک ہی جرم کے لیے غیر قانونی طور پر جمع ہر شخص قصوروار)، دفعہ 427 (شرارت جس سے 50 روپے کا نقصان ہونا)، دفعہ 435 (شرارت کرکے 100 روپے کے نقصان پہنچانے کے ارادے سے آگ لگانا)، دفعہ 34 (مشترکہ ارادہ)، اس کے ساتھ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 7 (دہشت گردی کرنے کی سزا) شامل کی گئی ہیں۔