سانحہ مچھر کالونی: دھرتی کے مالک اپنے ہی شہر میں غیروں کے ہاتھوں قتل
مچھر کالونی کا نام سنتے ہی ہر کوئی تصور کرنے لگتا ہے کہ یہاں مچھر بستے ہوں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہاں مچھر نہیں بلکہ جانوروں سے بدتر ایسے انسان بھی بستے ہیں جنہیں آج کے دور میں مہذب معاشرے کا ذمہ دار فرد کہنا بھی غلط ہوگا۔
شاید پاکستان کے بہت زیادہ لوگوں کو مچھر کالونی میں چند دن قبل ہونے والے سانحے کا زیادہ علم نہ ہو، کیوں کہ بدقسمتی سے اس وقت ملک کی بہت بڑی آبادی انسانیت سوز واقعات کے بجائے دوسرے مسائل پر توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہے۔
صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کے ضلع کیماڑی کی مچھر کالونی میں 28 اکتوبر کو جانوروں (انسانوں) کی ایک بھیڑ نے دو کمسن اور معصوم انسانوں کو ڈنڈے، پتھر، اینٹیں اور راڈیں مار مار کر ہلاک کردیا تھا۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مچھر کالونی میں رہنے والے لوگ اب انسانیت سے محروم ہو چکے ہیں۔صرف دکھنے میں ہی وہ انسان ہیں، باقی ان کا کردار وہی ہے جو مچھروں کا ہے جو انسانوں کو جینے نہیں دیتے۔
اس علاقے کا پرانا نام مچھیرا تھا کیونکہ ان کی اکثریت یہاں تھی لیکن رفتہ رفتہ وہ یہاں سے چلے گئے اب بھی یہاں وہ ہی کاروبار تو چلتا رہتا ہے ، جب یہاں آبادی بڑھتی گئی تو یہاں کا سیوریج نظام ناکارہ ہی رھ گیا جس کی وجہ سے گندگی پیدا ہو گئی اور مچھروں کی تعداد بڑھنے سے اس کالونی کا نام مچھر کالونی پڑ گیا
یہ بھی پڑھیں: کراچی میں ٹھٹہ اور نوشہروفیروز کے دو نوجوان ہجوم کے ہاتھوں ہلاک
لیکن کچھ دن پھلے کے واقعے کے بعد محسوس کیا جا سکتا ہے کہ اس علاقے کا نام مناسب طور پر مچھر کالونی رکھ دیا گیا تھا۔ مچھر کالونی کراچی کے ضلع کیماڑی میں واقع ہے، یہ وہ علاقہ ہے جہاں بہت سے افغانی، بنگالی، بہاری اور دیگر قومیتیں غیر قانونی طور پر مقیم ہیں، جس دن موبائل کمپنی کے دو ملازمین کو بچوں کے اغوا میں ملوث ٹھرا کر پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس وقت اس علاقے میں پولیس اہلکار بھی موجود تھے۔
سندھ کے ضلع نوشہری فیروز کے نوجوان محمد اسحاق پنہور اور ٹھٹھہ کے صحافی سعید جاوید کے بیٹے ایمن سعید کو مچھر کالونی کے غنڈوں نے قتل کر دیا، اس واقعے سے ایک روز قبل ایک معصوم بچی کسی ناانصافی کے خلاف کراچی آئی تھی،پر اس کو شرپسندوں نے بغیر کسی ثبوت کے پاک کتاب کی توھین کا الزام لگا کر تشدد کا نشانہ بنایا تھا، لوگوں کے ہجوم میں یہ لڑکی سر جھکائے خاموشی سے اپنا تماشا دیکھ رہی تھی، کون بتائے گا کہ اگر اسے پاک کتاب کی توھین کرنی تھی تو وہ دادو سے کراچی کیوں آئی؟ کیا ایسا کام وہاں نہیں کر سکتی تھی؟
بحرحال چند ماہ قبل حیدرآباد میں ایک ہندو خاندان کے ساتھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا، جب سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آئی تو ملزم کوئی اور مسلم خاتون تھی۔ تو اس کے بعد وہ ہجوم خاموشی سے واپس چلا گیا جسے کوئی توہین کا واقعا ہوا ہی نہیں تھا، کہانی صرف اس مچھر کالونی کے واقعے سے ختم یا شروع نہیں ہوتی اس سے پہلے بیچ ہجوم میں ارشاد رانجھانی کو قتل کیا گیا تھا۔ شہر کے وسط میں ایک پٹھان رحیم شاہ نے بڑی بے دردی سے ان کو قتل کر دیا تھا، اگر ماضی کے واقعات کی بات نکلے گی تو حیدرآباد میں افغانستان کی شھریت رکھنے والے ملزمان نے بیچ شھر میں نوجوان بلال کاکا کو بڑی بیدردی سے ہلاک کر دیا تھا۔
عجیب بات یھ بھی ہے کہ اس قسم کے واقعات اس دھرتی کے شہریوں کے ساتھ پیش آتے ہیں اور وہ واقعات غیر قانونی طور پر بسنے والے غیر ملکی کرتے رہے ہیں، کیونکہ حالانکہ ان غیر قانونی رہنے والے غیر ملکیوں کی پاکستان میں رہنے کی کوئی گنجائش نہیں، غیر ملکیوں مکمل چھوٹ ملنے سے ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ اگر ان کی غیر قانونی رہنے پر بندش لگائی جائے اور ہر جگہ چیک کیا جائے تو ایسے واقعات پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے ، لیکن یہاں جو غیر ملکی پاکستان میں رہتے ہوئے اپنے ملکوں کے جھنڈے لہراتے نظر آتے ہیں، وہ پاکستان کے اصل باشندوں سے زیادہ محفوظ ہیں، اور وہ یہاں کے قانون کو بھی چیلنچ کرتے رہتے ہیں۔ اور افسوس یھ ہوتا ہے کے یہاں کا قانون بے بس نظر آتا ہے ، اسی ہی وجہ سے مچھر کالونی جیسے وقوعات ھر آئے دن ہوتے رہتے ہیں۔
عجیب اتفاق ہے کہ یورپ اور امریکہ کا حوالہ دیتے ہوئے پاکستان میں موجود غیر ملکیوں کے بچوں کو پاکستانی شہریت دینے کے فیصلے ہو رہے ہیں، یورپ اور امریکا میں تو ان غیر ملکیوں کو شھریت دی جاتی ہے جو وہاں قانونی طور پر رہتے ہیں ، جو اپنے ہر ایک دن کی ٹیکس دیا کر کرتے ہیں، جو ریاست کے اور ریاست کے اصل باشندوں کے مفاد میں کام کرتے ہیں، مگر ہیاں تو ان کے بچوں کو شھریت دی جا رہی ہے جو پاکستان میں رہتے ہوئے اپنے ملک کے جنڈے لھراتے نظر آتے ہیں، منشیات ، ڈکیتی اور دیگر جرائم میں ملوث ہیں، انہیں ڈی پورٹ کرنے کے بجائے پاکستان کی شہریت دی جا رہی ہے جو کے ہیاں اصل بسنے والوں کے مستقبل کے لئے کسی خطرے سے کم نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی سے دادو کی خاتون توہین مذہب کے الزام میں گرفتار
آئے روز غیر ملکی، مقامی لوگوں کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں، سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز کے بعد بھی ملک کا قانون خاموش ہے کیونکہ یہ واقعہ کراچی میں پیش آیا ہے۔ مچھر کالونی میں وہ بھی اہلکاروں کی موجودگی میں، اور ان اہلکاروں نے خود کو بچانا اپنا فرض سمجھا مگر کسی شھری کو بچانا فرض نہیں سمجھا حالانکہ ان کو جو سیلری ملتی ہے وہ ان شھریوں کے ٹیکس سے ہی ملتی ہے جو شھری ان کے آنکھوں کے سامنے بڑی بیدردی سے مارے گئے۔
سندھ میں ایسے واقعات پر کنٹرول اس لیے نہیں ہوتا کیونکہ ہہاں قانون کی حکمرانی نہیں، قانون کی حکمرانی کا یہ حال ہے کہ پورے ملک میں سیاستدان اور حکمران ایک دوسرے سے لڑنے میں ہی مصروف ہیں، یہی وجہ ہے کہ جنگل کا قانون بنا ہوا ہے، جس کو جو چاہے وہ کرتا ہی رہتا ہے اقرمچھر کالونی کا حالیہ واقعہ سیدھی ٹارگٹ کلنگ لگتا ہے۔
اگر کسی عام آدمی کو مارنا ہے تو اسے عوام کے ہجوم میں چور چور کہہ کر ماد دیا جائے تو بہت ہی آسان طریقا ہے جیسے مچھر کالونی میں ہو اہے،اگر وہاں موجود اہلکار ایک دو ہوائی فائر ہی کرتے تو شرپسند بھاگ جاتے اور 2 نوجوانوں کی زندگی بچ جاتی مگر ایسا نہیں ہوا
اس واقعے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ یہ بنگالی، بہاری یا افغانی کبھی بھی یہ برداشت نہیں کرتے کہ کوئی دوسری کمیونٹی کا شخص ان کے علاقے میں کاروبار کرے یا ملازمت کرے، انہیں ہراساں کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان کمپنیوں میں ان کے لوگ بھرتی کیے جائیں۔
اس وقت نہ صرف واقعے کی ہر طرف سے تحقیقات کی ضرورت ہے بلکہ چاروں اہلکاروں کو معطل کرکے تحقیقات میں شامل کیا جائے، یہی نہیں بلکہ مچھر کالونی میں غیر قانونی طور پر رہائش
پذیر افراد کے خلاف بھی بڑا آپریشن کیا جائے۔ تجاوزات کو ہٹایا جائے، تا کہ مستقبل میں ایسے واقعات پر کنٹرول کیا جائے نہیں تو یہ واقعات ہمیشہ کے لیے قانون کی حکمرانی کو نقصان پہنچاتے
رہیں گے۔
تحریر سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں
ماجد سموں سندھ کے سینیئر صحافی ہیں، وہ دو دہائی سے زیادہ عرصے سے میڈیا کا حصہ ہیں- انہیں مختلف موضوعات پر دسترس حاصل ہے، وہ سماجی، سیاسی اور معاشی مسائل پر گہری نظر رکھتے ہیں