جی ایم سید: محبت کے ایک عظیم اوتار
نواز خان زئور
زندگی کا یہ بھی ایک بہت ہی عجیب المیہ ہے کہ کبھی کبھی چیزیں جیسی اصل میں ہوتی ہیں ویسی دکھائی نہیں دیتیں یا پھر ان کو ان کی اصلیت کے بلکل ہی برعکس پیش کیا جاتا ہے. حقیقت میں جی ایم سید کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا. وہ ایک محب وطن تھے، لیکن اسٹیبلشمینٹ ان کے لباس پہ غداری کے الزامات کی سیاہی لکھتی رہی. البتہ جب وہ ان ہی داغوں کو سجا کر بزمِ عدالت پہنچے تو ججوں میں ان کا سامنا کرنے کی جرأت نہ رہی اور وہ عدالت کے پچھلے دروازے سے بھاگ کھڑے ہوئے. دنیا کی عدالتی تاریخ کا یہ ایک بہت انوکھا کیس ہے کہ ملزم اپنے ہی کندھوں پہ اپنی صلیب اٹھا کر عدالت کے سامنے آتا رہا، لیکن وقت کے قاضی ڈر کے مارے عدالتیں چھوڑ کر بھاگتے رہے. ایک خالی ہاتھ اور ناتواں ملزم کے سامنے قانون، کورٹیں، جج اور انصاف تھر تھر کانپتے رہے.
جی ایم سید کی حب الوطنی پاکستانی حب الوطنی کے تنگ دائرے سے بہت بالاتر اور دور تھی. وہ سندھی محب وطن تھے. وہ سندھ کو اپنا وطن، ملک اور ماں مانتے تھے. یہیں سے ان کا جرم شروع ہوکر یہیں پر ختم ہو جاتا ہے.
وہ ہوچی منھ، سن یات سین، فیڈل کاسترو، پیٹرک لوممبا، ایملکار کئبرال، جواہر لال نہرو اور جمال عبدالناصر جیسیے محب وطن تھے. ایک قومپرست اور آزادی پسند، اور بیٹھکی نظام کے سخت ترین مخالف اور غلامی کے سب سے بڑے دشمن.
وہ اپنے جوہر میں ایک آزادی پسند، سیکیولر، روشن خیال اور روادار قومپرست تھے، جن کی رگ و جاں میں جدت، ترقی پسندی اور ندرت حیاتِ جاوداں کی طرح موجزن تھی، لیکن ان کے مخالف ان پر قدامت پسندی، رجعت پسندی اور پرانے زمانے کے اقدار و اطوار کے الزامات لگاتے ہوئے اک پل کے لیے بھی نہیں تھکتے تھے.
وہ جاگیرداری اور استحصال کے بڑے مخالف تھے، لیکن کمیونسٹ حضرات ان پر جاگیردار اور وڈیرہ ہونے کا ڈھنڈھورا پیٹتے تھے. ادھر جاگیردار اور وڈیرے ان کو اپنا سب سے بڑا دشمن گردانتے تھے.
وہ ایک بہت بڑے عالم اور منجھے ہوئے ادیب تھے، مگر سرکاری ادیب ان سے کنی کتراتے پھرتے تھے اور حکومتیں ان کی کتابوں پر پابندیاں عائد کردیتی تھیں.
وہ مذہبوں کو انسان کی فکری ارتقا، سماجی خدمت اور تزکیہءِ نفس کا ذریعہ سمجھتے تھے، لیکن ملا اور مذہب کے دیگر ٹھیکیدار ان پر کفر کے فتوے اور الزامات عائد کرتے رہے اور ان کو کافر مشہور کر کے سادہ دل لوگوں کو بھنبھلاتے رہے. یہ سب اس لیے کیا جاتا رہا تاکہ لوگ ان کی حق کی بات سننے کی بجائے ان سے دور رہیں. لوگ جی ایم سید جیسے مسیحاؤں سے دور رہیں گے تو کنعان کے رومی گورنر پونٹیس پِلاٹی جیسے ظالم حکمرانوں کے فیصلوں پر سر دھنتے رہیں گے.
بلکل اسی ہی طرح جی ایم سید پر ایک یہ الزام بھی تھا کہ ”وہ مسلمان بھائیوں کے بیچ میں نفرتوں کو پروان چڑہا رہے ہیں. ان کی باتوں کی وجہ سے مملکت خداداد پاکستان کی مسلم امٌہ کے درمیان نفرتیں اور اختلافات پھیل رہے ہیں.“ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے اقوال زرین وہ لوگ پھیلاتے رہے ہیں، جن کے لیے جوش ملیح آبادی نے کہا تھا:
تُو اور ابن مریم کا پیرو!
تیری کہنیوں سے ٹپکتا ہے لہو،
اشرار کو زیبا نہیں یہ شورشیں،
کل یزید و شمر تھے آج بنتے ہیں حسین!
وہ لوگ الزام لگاتے رہے. لیکن یہ مست الست آدمی اپنی دھن میں وطن، روشن خیالی، انسانیت اور محبت کے گیت گاتے رہے. الزامات سے بے نیاز، سزا اور جزا سے بے پرواہ، خوف سے بالاتر اور تھکن سے کوسوں دور رہنے والا یہ شخص اپنے چنے ہوئے راستے پر چلتا رہا.
حقیقت یہ ہے کہ جی ایم سید ایک سرتاپا محبت انسان تھے. ان کی رگ رگ میں محبت سمندر کی طرح لہریں بن کر چھلکتی تھی. وہ کسی سے نفرت نہیں کرتے تھے. نہ ہی ان کی باتیں نفرت کو پروان چڑہا رہی تھیں. ان کی باتیں، چاہے وہ کچہریاں ہوں یا تقریریں یا ان کی تحریریں، صبح کی ہیر اور سورج کی کرنوں کی مانند ہوا کرتی تھیں، جن کے چھوتے ہی مردہ دلوں میں زندگی کی نئی رمق پیدا ہو جاتی تھی.
یہ حقیقت ہے کہ جی ایم سید کی زندگی کے ایک سے زیادہ پہلو ہیں. وہ ایک ہی وقت بڑے سیاستدان تھے، لاجواب ادیب تھے، بڑے عالم اور مفکر تھے، زبردست نقاد تھے، دور بین نظر رکھنے والے تاریخدان تھے اور اپنے دؤر کے سب سے بڑے باغی تھے. لیکن ان سب صورتوں میں بیپناہ محبت پنہاں تھی. ایک بے کراں سمندر کی سی محبت، جو ظلم، جبر اور زیادتیوں کے طوفانوں سے لڑتی رہی.
جی ایم سید ایک ایسے ایماندار اور بااصول سیاستدان تھے، جو اصولوں پر سودیبازی نہیں کرتے تھے اور سچائی، اصول، ایمانداری اور قومی مفادات کی خاطر ہر آمر اور غاصب سے لڑ پڑتے تھے. یہی وجہ ہے کہ محمد علی جناح سے لے کر ضیاءُ الحق تک ہر حکمران نے جی ایم سید سے زیادتی کی اور ناانصافی پر مبنی برتاءُ کیا. ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر بینظیر بھٹو تک ہر جمہوری دعویدار نے بھی انہیں نظربند ہی رکھا. آج کل خلائی مخلوق کا نشانہ بننے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کو بھی یہ بات یاد آگئی ہے کہ جی ایم سید کے ساتھ ناانصافی کی گئی تھی، لیکن اسی پارٹی کی حکومت میں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کے دوران بھی جی ایم سید کو نظربند رکھا گیا تھا.
یہ حیرتناک بات ہے کہ جن جن لوگوں یا حکمرانوں نے جی ایم سید سے ناانصافی اور زیادتی روا رکھی، وہ خود بھی ناانصافی کا شکار ہوئے. کیا یہ مکافاتِ عمل نہیں ہے!؟ یہ الگ بات ہے کہ جی ایم سید نے کبھی کسی کو بددعا نہیں دی. وہ ایک عظیم انسان اور عالی منش تھے. ایک ایسے عالی منش، جو سخت ترین حالات میں بھی صبر کے دامن کو ہاتھوں سے جانے نہیں دیتے تھے. یہ ان کی شخصیت کا ایک بہت خاص اور انتہائی طاقتور پہلو رہا. وہ صبر کی طاقت سے ہر جابر کو مات دے دیا کرتے تھے.
جی ایم سید وہ واحد سیاستدان تھے، جنہوں نے اپنا ہر تجربہ نوکِ قلم کے سپرد کیا اور اس عمل میں وہ خود اپنے نقاد بھی بنے. انہوں نے جو کچھ تحریر کیا، وہ جرأتمندی اور سچائی کے ساتھ تحریر کیا. ان کی تحریروں سے ان کی شخصیت کے تمام پہلو نشانبر ہو کر سامنے آتے ہیں. وہ اپنے خیالات میں کرسٹل کی طرح شفاف، بہتی ندی کی طرح تر و تازہ اور سورج کی مانند روشن تھے.
سیاستدان اور دیگر شہرت یافتہ لوگ اپنے معاشقوں کو چھپاتے پھرتے ہیں. لیکن ایک جی ایم سید تھے، جنہوں نے اپنے معاشقوں کو بھی آئینے کی طرح لوگوں کے بلکل سامنے رکھا. جب وہ اپنی محبوباؤں مریم طیبی، جیٹھی سپاہیملانی اور مادموزیل تراکی کا ذکر کرتے تھے، تو ان کی زبان سے شہد جیسے الفاظ میٹھاس اور پھولوں جیسا لہجا خوشبوئیں بکھیرنے لگتا تھا. لیکن ان کی یہ محبت صرف تین خوبصورت عورتوں تک ہی محدود نہ رہی، وہ ستارہ ستارہ بن کر عوام اور قوم کے آسمانوں میں پھیل گئی. وہ عشق مجازی کی سرحدیں پھلانگ کر عشق حقیقی تک جا پہنچے تھے. سندھ ملک، سندھی قوم اور انسانذات کی آزادی، ترقی، بقا اور عالمی امن اور حسنِ ازل ان کا حقیقی عشق تھے. انہوں نے مجاز اور حقیقت کو ایک دوسرے میں مدغم کردیا تھا.
محبت ہمیشہ جی ایم سید کی شخصیت کا حاوی پہلو رہی. وہ محبت کی سوندھی مٹی سے گوندھے ہوئے انسان تھے. وہ اپنی ایک شاندار تقریر میں کہتے ہیں:
“ہم عدم تشدد اور اہنسا کے حامی ہیں. اپنے خیال اور عقیدے کا اظہار محدود دائرے کے اندر، تالیفِ قلوب اور محبت کے ذریعے کرنا چاہتے ہیں… ہمارا اعتقاد ہے کہ سرزمینِ سندھ اور اس کے صوفیائے کرام کے پاس اتحاد انسانی، امنِ عالم اور دنیا کی خوشحالی کے لیے ایک خاص پیغام ہے. ہم اس مشن کے سفیر ہیں… ہم وطن کی محبت کو ایمان کا جزو سمجھتے ہیں. وطن کی ہر چیز سے ہمیں پیار ہے. اس کی آزادی، حفاظت اور فرخندہ حالی میں ہمارا یقین ہے.”
(جی ایم سید: ”خطباتِ سید“، صفحہ ۳۲، ۳۳)
جی ایم سید بقائے باہمی (Co existence) میں یقین رکھتے تھے. وہ مولانا جلال الدین رومی کی اس بات کو بلکل درست اور سچ سمجھتے تھے.
تو برائے وصل کردن آمدی،
نے برائے فصل کردن آمدی!
”آپ کو اس دنیا میں جدائی اور نفاق پھیلانے کے لیے نہیں، بلکہ اتحاد اور محبت پیدا کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے.“
اسی طرح وہ ساری عمر محبت کے لیے کام کرتے رہے. سندھ کی آزادی کی جو انہوں نے بات کی ہے، اس کے پیچھے بھی محبت اور بقائے باہمی کی لازوال سوچ ہے.
قومیں آزاد رہ کر ہی ایک دوسرے سے محبت بھرے تعلقات قائم کر سکتی ہیں. آزادی کی فضا میں ہی امن برقرار رہ سکتا ہے. قومی غلامی اور محکومی قوموں کے درمیان نفرتیں، تکرار، تشدد اور جنگیں پیدا کرتی ہے. بالادست اور زیردست کے درمیان کبھی بھی محبت پیدا نہیں ہوسکتی. محبت، امن اور بقائے باہمی کے لیے قوموں کا آزاد اور برابر ہونا لازمی ہے. قومی آزادی کی بات محبت، امن، بقائے باہمی اور خوشحالی کی بات ہے. قومیں آزاد رہ کر ہی ایک دوسرے سے باہمی محبت اور تعاون بڑہا سکتی ہیں.
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو جی ایم سید محبت کے ایک ایسے اوتار تھے، جو قوموں اور سب انسانوں کے درمیان محبت کا رشتہ استوار کرنا چاہتے تھے. کون کہتا ہے کہ محبت ناکام ہوتی ہے؟ محبت ہی تو ازلی ابدی فاتح ہے؛ اور محبت کی فتح کے اس آسمان پر جی ایم سید کا نام ہمیشہ روشن ستارے کی مانند چمکتا اور دمکتا رہے گا.