غازی گوٹھ کو مسمار کرنے کی سازش میں سرکاری افسران ملوث قرار

پولیس کی کارروائی میں خواتین اور بچے بھی زخمی ہوئے تھے—فوٹو: ٹوئٹر

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے حکم پر بنائی گئی تفتیشی ٹیم نے کراچی کی اسکیم 33 میں صفوراں اور سچل گوٹھ کے قریب واقع قدیم سندھی رہائشی آبادی غازی شاہ گوٹھ کو مسمار کرنے میں سرکاری افسران کو ہی ملوث قرار دے دیا، جس کے بعد صوبائی حکومت نے کارروائی کرتے ہوئے پولیس اور انتظامیہ کے 7 افسران کو معطل کردیا۔

وزیر اعلیٰ کی ہدایات پر چیف سیکریٹری سندھ سہیل راجپوت نے تفتیشی ٹیم بنائی تھی، جس کا سربراہ کمشنر کراچی  محمد اقبال میمن کو بنایا گیا تھا، ٹیم میں اینٹی انکروچمنٹ ضلع شرقی کے سربراہ کو بھی شامل کیا گیا تھا جب کہ ٹیم کو انکروچمنٹ افسران اور پولیس کے کردار کی تفتیش کا ٹارگٹ دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی کے غازی گوٹھ کو مسمار ہونے سے بچانے کے دوران تصادم۔ 5 افراد زخمی

تفتیشی ٹیم نے دیے گئے مقررہ تین دن میں اپنی رپورٹ میں پولیس اور انتظامیہ کے افسران کو ملوث قرار دیا ہے، رپورٹ میں بتایا گیا کہ غازی گوٹھ کو مسمار کرنے کا آپریشن اے سی اور مختار کار نے ایڈیشنل ڈی سی سے ملی بھگت کرکے شروع کیا اور اس کی اجازت اعلیٰ حکومتی افسران سے نہیں لی گئی، پولیس اور انکروچمنٹ اہلکاروں نے افسران کے حکم پر آپریشن شروع کیا، جس میں محکمہ روینیو کے افسران یا اہلکار شامل نہیں تھے۔

ٹائمز نیوز کے مطابق رپورٹ میں ڈی ایس پی سہراب گوٹھ سہیل فیض کو غازی گوٹھ پر پولیس کارروائی میں ملوث قرار دے کر انہیں معطل کرنے کی سفارش کی گئی تھی مگر حکومت نے بااثر سہیل فیض کے بجائے ڈی ایس پی سچل گوٹھ کو معطل کردیا۔

 

حکومتی رپورٹ میں ہی انتظامیہ اور پولیس کو ذمہ دار قرار دیا گیا ہے—فوٹو: ٹائمز نیوز

دوسری جانب روزنامہ دنیا نے بتایا کہ تفتیشی رپورٹ کے بعد سندھ حکومت نے کارروائی کرتے ہوئے مجموعی طور پر 7 افسران اور عہدیداروں کو معطل کردیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ تفتیشی رپورٹ کے بعد چیف سیکریٹری سندھ سہیل راجپوت نے ڈی ایس پی اور ایس ایچ او سچل، ڈپٹی کمشنر ہشام مظہر، اسسٹنٹ کمشنر گلزار ہجری ندیم قادر، مختار کار گلزار ہجری جلیل بروہی، تپہ دار عاشق تنیو اور انچارج اینٹی انکروچمنٹ فورس ضلع شرقی محمد احمد کو معطل کردیا۔

دوسری جانب غازی شاہ کو غیر قانونی طور پر مسمار کرنے کی کوشش کے خلاف سندھ کی مختلف قومپرست جماعتوں نے صوبے بھر میں شدید احتجاجی مظاہرے جاری رکھے ہوئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: غازی گوٹھ کے مکینوں پر تشدد کے خلاف لوگ برہم

ضلع شرقی اور پولیس انتظامیہ نے غازی گوٹھ کو 10 دن قبل مسمار کرنے کی کوشش کی تھی، جس پر علاقہ مکینوں نے شدید احتجاج کیا اور اس دوران کشیدگی اور ہنگامہ آرائی سے علاقہ مکینوں اور پولیس اہلکاروں سمیت 30 سے زائد افراد زخمی بھی ہوگئے تھے۔

پولیس اور انتظامیہ نے کارروائی کرتے ہوئے 150 علاقہ مکینوں، قومپرست سیاستدانوں، صحافیوں اور سماجی کارکنان پر دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ دائر کرتے ہوئے چار افراد کو گرفتار بھی کرلیا تھ۔ا۔

گزشتہ چند سال سے متعدد بار اینٹی انکروچمنٹ، پولیس اور ضلعی انتظامیہ غازی شاہ گوٹھ کو غیر قانونی قرار دے کر مسمار کرنے کی کوشش کر چکی ہے اور ایسی کوشش پر ہر بار کشیدگی ہوتی ہے اور متعدد افراد زخمی ہوتے ہیں، جس پر صوبے بھر میں احتجاج بھی کیا جاتا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:  غازی گوٹھ واقعہ: احتجاج کرنے والے 150 افراد کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ دائر

 

غازی گوٹھ کو مسمار کرنے کے خلاف مکینوں نے پرامن احتجاج بھی کیے—فوٹو: ٹوئٹر