حکومتی دعوے جھوٹے، پریا کماری کی بازیابی میں پیش رفت نہ ہونے کا انکشاف
سندھ حکومت کی جانب سے تین سال قبل اغوا کی گئی بچی پریا کماری کی بازیابی کے لیے بنائی گئی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ میں بچی کی بازیابی میں کوئی بھی پیش رفت نہ ہونے کا انکشاف سامنے آیا ہے۔
اس سے قبل جے آئی ٹی ٹیم کے سربراہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) جاوید جسکانی اور وزیر داخلہ ضیا لنجار نے دعویٰ کیا تھا کہ پریا کماری کے زندہ ہونے کی اطلاعات ملی ہیں اور انہیں جلد بازیاب کرایا جائے گا۔
حکومت اور پولیس نے دعوے کیے تھے کہ پریا کماری کی آخری لوکیشن پنجاب کے بہاولپور، ملتان اور لودھراں کے علاقوں میں ملی ہے اور جلد ہی ملزمان تک پہنچ کر بچی کو بازیاب کرایا جائے گا۔
سندھ حکومت کی جانب سے تین سال قبل اغوا کی گئی بچی پریا کماری کی بازیابی کے لیے بنائی گئی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ میں بچی کی بازیابی میں کوئی بھی پیش رفت نہ ہونے کا انکشاف سامنے آیا ہے۔
اس سے قبل جے آئی ٹی ٹیم کے سربراہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) جاوید جسکانی اور وزیر داخلہ ضیا لنجار نے دعویٰ کیا تھا کہ پریا کماری کے زندہ ہونے کی اطلاعات ملی ہیں اور انہیں جلد بازیاب کرایا جائے گا۔
حکومت اور پولیس نے دعوے کیے تھے کہ پریا کماری کی آخری لوکیشن پنجاب کے بہاولپور، ملتان اور لودھراں کے علاقوں میں ملی ہے اور جلد ہی ملزمان تک پہنچ کر بچی کو بازیاب کرایا جائے گا۔
پریا کماری کے زندہ ہونے ثبوت ملے ہیں، جلد بازیاب کرائیں گے، وزیر داخلہ سندھ
لیکن اب جے آئی ٹی کی جانب سے سندھ ہیومن رائٹس کمیشن کو پیش کی گئی پیش رفت رپورٹ میں ایسی کوئی تصدیق نہیں کی گئی کہ پریا کماری کا سراغ لگایا گیا ہے۔
جے آئی ٹی کی جانب سے سندھ ہیومن رائٹس کمیشن کو پیش کردہ رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام حکومتی دعوے بے بنیاد تھے، تاحال ٹیم کو پریا کماری کا سراغ نہیں ملا، کسی بھی مرکزی ملزم کو گرفتار نہیں کیا جا سکا اور نہ ہی مرکزی ملزمان کا تعین کیا جا سکا ہے۔
پریا کماری پنجاب کے چولستان میں موجود ہیں، وزیر داخلہ سندھ کا دعویٰ
رپورٹ میں بتایا گیا کہ جس علاقے سنگرار سے پریا کماری اغوا ہوئی، وہاں کے 400 سے زائد گھروں کی تلاشی لی گئی، 300 سے زائد گھروں کو سراغ رساں کتوں کے ذریعے جانچا گیا اور ہزار سے زائد مشکوک افراد سے تفتیش کی گئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سنگرار کے سید گھرانے کے 40 ملازمین کے بھی بیانات قلم بند کیے گئے، 26 مشکوک ملزمان کے ڈی این اے ٹیسٹ کرائے گئے، جن میں سے 13 ملزمان کے ٹیسٹ منفی آئے جب کہ مزید ملزمان کے ٹیسٹ کے نتائج تاحال نہیں آئے۔
جے آئی ٹی نے بتایا کہ پریا کماری کی بازیابی کے لیے پنجاب کے علاقوں، ملتان، بہاولپور اور لودھراں میں بھی چھاپے مارے گئے، مشکوک ملزمان سے تفتیش کی گئی لیکن تاحال بچی کا کوئی سراغ نہیں ملا۔
پریا کماری کہاں ہیں؟ کیا پریا سنگھراسی کی حویلی میں قید ہیں؟ سندھ کا سوال
جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے سندھ ہیومن رائٹس کمیشن کو بتایا کہ پریا کماری کی بازیابی کے لیے تاحال کوششیں جاری ہیں لیکن اب تک کوئی پیش رفت یا بڑی کامیابی نہیں ملی۔
سندھ حکومت کی جانب سے تین سال قبل اغوا کی گئی بچی پریا کماری کی بازیابی کے لیے بنائی گئی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ میں بچی کی بازیابی میں کوئی بھی پیش رفت نہ ہونے کا انکشاف سامنے آیا ہے۔
اس سے قبل جے آئی ٹی ٹیم کے سربراہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) جاوید جسکانی اور وزیر داخلہ ضیا لنجار نے دعویٰ کیا تھا کہ پریا کماری کے زندہ ہونے کی اطلاعات ملی ہیں اور انہیں جلد بازیاب کرایا جائے گا۔
حکومت اور پولیس نے دعوے کیے تھے کہ پریا کماری کی آخری لوکیشن پنجاب کے بہاولپور، ملتان اور لودھراں کے علاقوں میں ملی ہے اور جلد ہی ملزمان تک پہنچ کر بچی کو بازیاب کرایا جائے گا۔
لیکن اب جے آئی ٹی کی جانب سے سندھ ہیومن رائٹس کمیشن کو پیش کی گئی پیش رفت رپورٹ میں ایسی کوئی تصدیق نہیں کی گئی کہ پریا کماری کا سراغ لگایا گیا ہے۔
جے آئی ٹی کی جانب سے سندھ ہیومن رائٹس کمیشن کو پیش کردہ رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام حکومتی دعوے بے بنیاد تھے، تاحال ٹیم کو پریا کماری کا سراغ نہیں ملا، کسی بھی مرکزی ملزم کو گرفتار نہیں کیا جا سکا اور نہ ہی مرکزی ملزمان کا تعین کیا جا سکا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ جس علاقے سنگرار سے پریا کماری اغوا ہوئی، وہاں کے 400 سے زائد گھروں کی تلاشی لی گئی، 300 سے زائد گھروں کو سراغ رساں کتوں کے ذریعے جانچا گیا اور ہزار سے زائد مشکوک افراد سے تفتیش کی گئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سنگرار کے سید گھرانے کے 40 ملازمین کے بھی بیانات قلم بند کیے گئے، 26 مشکوک ملزمان کے ڈی این اے ٹیسٹ کرائے گئے، جن میں سے 13 ملزمان کے ٹیسٹ منفی آئے جب کہ مزید ملزمان کے ٹیسٹ کے نتائج تاحال نہیں آئے۔
جے آئی ٹی نے بتایا کہ پریا کماری کی بازیابی کے لیے پنجاب کے علاقوں، ملتان، بہاولپور اور لودھراں میں بھی چھاپے مارے گئے، مشکوک ملزمان سے تفتیش کی گئی لیکن تاحال بچی کا کوئی سراغ نہیں ملا۔
جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے سندھ ہیومن رائٹس کمیشن کو بتایا کہ پریا کماری کی بازیابی کے لیے تاحال کوششیں جاری ہیں لیکن اب تک کوئی پیش رفت یا بڑی کامیابی نہیں ملی۔
لیکن اب جے آئی ٹی کی جانب سے سندھ ہیومن رائٹس کمیشن کو پیش کی گئی پیش رفت رپورٹ میں ایسی کوئی تصدیق نہیں کی گئی کہ پریا کماری کا سراغ لگایا گیا ہے۔
جے آئی ٹی کی جانب سے سندھ ہیومن رائٹس کمیشن کو پیش کردہ رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام حکومتی دعوے بے بنیاد تھے، تاحال ٹیم کو پریا کماری کا سراغ نہیں ملا، کسی بھی مرکزی ملزم کو گرفتار نہیں کیا جا سکا اور نہ ہی مرکزی ملزمان کا تعین کیا جا سکا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ جس علاقے سنگرار سے پریا کماری اغوا ہوئی، وہاں کے 400 سے زائد گھروں کی تلاشی لی گئی، 300 سے زائد گھروں کو سراغ رساں کتوں کے ذریعے جانچا گیا اور ہزار سے زائد مشکوک افراد سے تفتیش کی گئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سنگرار کے سید گھرانے کے 40 ملازمین کے بھی بیانات قلم بند کیے گئے، 26 مشکوک ملزمان کے ڈی این اے ٹیسٹ کرائے گئے، جن میں سے 13 ملزمان کے ٹیسٹ منفی آئے جب کہ مزید ملزمان کے ٹیسٹ کے نتائج تاحال نہیں آئے۔
جے آئی ٹی نے بتایا کہ پریا کماری کی بازیابی کے لیے پنجاب کے علاقوں، ملتان، بہاولپور اور لودھراں میں بھی چھاپے مارے گئے، مشکوک ملزمان سے تفتیش کی گئی لیکن تاحال بچی کا کوئی سراغ نہیں ملا۔
جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے سندھ ہیومن رائٹس کمیشن کو بتایا کہ پریا کماری کی بازیابی کے لیے تاحال کوششیں جاری ہیں لیکن اب تک کوئی پیش رفت یا بڑی کامیابی نہیں ملی۔