وفاقی حکومت کا شاہ رخ جتوئی کی بریت کے خلاف اپیل دائر کرنے کا فیصلہ

فائل فوٹو: فیس بک

وفاقی حکومت نے شاہ زیب قتل کیس کے مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی سمیت دیگر ملزمان کی بریت کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت نے اٹارنی جنرل سے رائے طلب نہیں کی۔

سپریم کورٹ نے ایک دن قبل شاہ رخ جتوئی سمیت کیس کے تمام ملزمان کو بری کرنے کا حکم دیا تھا۔

تاہم عدالتی فیصلے پر اٹارنی جنرل نے اعتراض کرتے ہوئے اس کے خلاف اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے نظر ثانی کا ڈرافٹ بھی تیار کرلیا۔

انگریزی اخبار دی نیوز کے مطابق اٹارنی جنرل کے دفتر نے شاہ رخ جتوئی سمیت دیگر ملزمان کی بریت کے خلاف اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ڈرافٹ تیار کرلیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ شاہ رخ جتوئی کی بریت کےفیصلے سے قبل اٹارنی جنرل آفس سے رائے طلب نہیں کی گئی جبکہ سپریم کورٹ اس معاملے کو پہلے ہی اہم آئینی معاملہ قرار دے چکی ہے۔

ڈرافٹ میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کے اہم آئینی معاملات پر پہلے بھی اٹارنی جنرل کی رائے طلب کی جاتی رہی ہے. جبران ناصر کیس میں اٹارنی جنرل آفس پہلےہی قرار دےچکاہے کہ معاملہ دہشتگردی کا ہے. بریت فیصلےمیں سپریم کورٹ دہشت گردی جرائم پر عدالتی فیصلوں سےہٹ کرنتیجے پرپہنچی ہے. سمجھوتے، فساد فی الارض اور دیگر معاملات میں اس کیس پر نظر ثانی بنتی ہے۔

ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ وفاقی حکومت کب تک شاہ رخ جتوئی کی بریت سے متعلق اپیل دائر کرے گی، تاہم ممکنہ طور پر اپیل کو رواں ہفتے ہی دائر کیا جائے گا۔

اس سے قبل سپریم کورٹ نے 18اکتوبر کو شاہ رخ جتوئی سمیت تمام ملزمان کو بری کردیا تھا۔

25 دسمبر 2012 کو درخشاں تھانے کی حدود میں 20 سالہ نوجوان شاہ زیب  کو بہن کی شادی سے گھر واپسی پر کراچی میں ڈیفنس کے علاقے میں قتل کیاگیا تھا۔

اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے مقدمے کا از خود نوٹس لیا تھا جس کے بعد پولیس نے مجرموں کو گرفتار کرکے ان کے خلاف انسداد دہشت گردی کی عدالت میں مقدمہ چلایا تھا۔

بعد ازاں انسداد دہشتگردی کی عدالت نے 30 جون 2013 کو شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کو سزائے موت جبکہ سجاد تالپور اور غلام مرتضی لاشاری عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

مجرموں نے 2013 میں ہی سزا کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔ عدالت کی جانب سے سزائے موت سنانے کے چند ماہ بعد شاہ زیب کے والدین نے معافی نامہ جاری کردیا تھا جس کو سندھ ہائی کورٹ نے منظور کیا تھا۔

شاہ زیب کے والدین کی جانب سے معافی نامہ جاری کرنے کے بعد سزائے موت دہشت گردی کی دفعات کے باعث برقرار تھی تاہم 11 نومبر 2017 کو سندھ ہائی کورٹ نے سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دوبارہ تفتیش کا حکم جاری کردیا تھا۔

30 دسمبر 2017  کو سیشن کورٹ نے شاہ رخ جتوئی سمیت دیگر مجرموں کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

لیکن بعد ازاں انسانی حقوق کے کارکن جبران ناصر اور کراچی کے دیگر شہریوں نے سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے شاہ زیب قتل کیس میں شاہ رخ جتوئی اور ان کے ساتھیوں کے مقدمے کو سیشن عدالت بھیجنے کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی، جس کے بعد کیس مزید کئی سال تک چلتا رہا مگر سپریم کورٹ نے 18 اکتوبر کو تمام ملزمان کو بری کرنے کا حکم دیا