سندھی، افغان تنازع اور مملکت پاکستان کی حرمت

بلاگر – زعیم راشد

گزشتہ ہفتے ایک سندھی نوجوان حیدرآباد میں ہوٹل پر رات کا کھانا کھاتے ہوئے پختون یا افغان ہوٹل مالکان کے ہاتھوں ہلاک ہو گیا، کہتے ہیں کہ معاملہ ویٹر کی بدتمیزی سے شروع ہو کر نوجوان کے قتل پر ختم ہوا۔ اس دوران عوامی سطح پر جو جو نقصانات ہوئے وہ اپنی جگہ مگر جو ملکی سطح پر نقصانات ہوئے وہ بھی قابل توجہ اور مستقل حل طلب ہیں۔ گو کہ انسانی جان بہرکیف بہت قیمتی اور اہم ہے مگر وطن کی حیثیت بہت عظیم اور اہم ہے، معاملہ جو کچھ بھی ہوا، نہایت افسوسناک اور تکلیف دہ ہے، مگر اس کے ردعمل کے طور پر جو کچھ ہوا وہ نہ صرف قابل مذمت، بلکہ قابل شرم بھی ہے۔ ان کے لئے بھی جو اس ملک کے انتظام و انصرام کے ذمہ دار ہیں بلکہ ہر محب وطن پاکستانی کے لئے بھی۔

ایک اندازے کے مطابق قریب چالیس لاکھ افغان پناہ گزین چالیس سال سے پاکستان میں رہے ہیں کھا کما رہے ہیں، مگر متعدد مواقع پر پاکستان کے لئے ان کے دل میں پلنے والا بغض بہت واضح طور پر دیکھا گیا ہے۔ چاہے وہ کرکٹ میچ ہو، یا امدادی سامان افغانستان لے جانے والا پاکستانی قافلہ ہو، عام افغانی کے دل کا عناد بار بار ظاہر ہو رہا ہے، ایسا کیوں ہے، ؟ جبکہ ایک غریب اور خود بدترین حالات کا شکار ملک مسلسل بلا کسی شرط کے ان کی میزبانی کیے جا رہا ہے رہنے کو جگہ اور کھانے کو جو کچھ میسر ہے دیا جا رہا ہے، مگر پاکستان کے لئے ان کے دلوں میں پلنے والی نفرت اکثر کھل کر سامنے آجاتی ہے۔

حیدرآباد میں جھگڑا جو بھی تھا اس کا مملکت خداداد پاکستان سے کوئی لینا دینا نہ تھا، یہ ایک انفرادی معاملہ تھا جسے انفرادی طور پر نمٹایا جانا چاہیے تھا مگر پورے سندھ میں خاص طور پر کراچی میں اور الآصف اسکوائر، سہراب گوٹھ پر بدترین توڑ پھوڑ کی گئی، لوٹ مار کی گئی، عام شہریوں جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں پر بد ترین تشدد کیا گیا، املاک کو شدید نقصان پہنچایا گیا، لوگوں کی قیمتی گاڑیوں کو شدید نقصان پہنچایا گیا، وہیں، افغانستان کے جھنڈے بھی لہرائے گئے، کیوں؟ بھائی کیا افغانستان نے پاکستان کو فتح کر لیا ہے یا ایسا کون سا کارنامہ انجام دیا ہے کہ خوشی میں اس ملک کے جھنڈے یہاں لہرائے جائیں وہ بھی ایسے موقع پر جب کہ صوبہ بھر میں تعصب کی آگ لگی ہوئی ہے۔

یہ جھنڈے لگائے جانا اور مشتعل جتھوں کا عام اکا دکا لوگوں پر حملہ آور ہونا اس بات کی علامت ہے کہ وہ پاکستان اور پاکستانیوں سے کس قدر نفرت و عناد رکھتے ہیں۔ اور یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ انہوں نے قانون اپنے ہاتھ میں لیا ہو، حد تو یہ ہے کہ ایک کتے کے گلے میں پاکستان کا جھنڈا باندھ کر اس کی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر ڈالی گئیں، اور ہم بس منمناتے ہی رہ گئے، کیوں ایسے عناصر کے خلاف تادیبی کارروائی نہیں کی جاتی جو بار بار پاکستان کی عزت کے ساتھ مذاق کرتے ہیں۔

یہ تو سیدھا سیدھا بغاوت کا کیس بنتا ہے، ہمارے ملک کی حیثیت عرفی یہاں رہنے والے پناہ گزین کھلے عام کر رہے ہیں اور ہم محض مصلحت کا فتوی لئے خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں، انہوں نے سہراب گوٹھ پر موجود اندرون ملک جانے والی بس کے نہایت قیمتی و آراستہ ٹرمنل کو تاراج کر کے رکھ دیا، ویڈیوز اس بات کی گواہ ہیں کہ انتشار پسند دہشت گروں کے ٹولے کے ٹولے کس دیدہ دلیری سے ہماری املاک تباہ کر رہے ہیں، اور جان لیں یہ وہ لوگ ہیں جن کو اگر انگلی پکڑائی جائے تو پہنچا پکڑنے کو دوڑتے ہیں، اگر ان کی آج بیخ کنی نہ کی گئی اور ان کو آج سبق نہ سکھایا گیا تو کل یہ لوگوں کے گھروں میں گھس گھس کر نقصان پہنچا سکتے ہیں، یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ سہراب گوٹھ اور الاآصف اسکوائر پورے سندھ میں سب سے بڑے جرائم کے اڈے ہیں جہاں کھلے عام منشیات اور ناجائز اسلحہ کا کاروبار ہوتا ہے۔

یہ بلاگ ابتدائی طور پر ہم سب ویب سائٹ پر شائع ہوا – اسے ہم سب پر پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں