گورنر سندھ کی سستی روٹی کہاں سے ملے گی؟

میڈیا کی سرخیوں میں خود کو زندہ رکھنے کی خواہش رکھنے والے ۔گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے ایسے اعلانات کرتے رہتے ہیں جیسے وہ کسی سوشلسٹ ملک میں رہتے ہیں۔ رمضان المبارک میں لوگوں کو افطار کرانے کا اعلان کیا تھا لیکن وہاں بھی عوام کو کچھ نصیب نہیں ہوا سوائے صحافیوں کے وہ بھی کوریج کی خاطر۔

اور پھر عیدالاضحیٰ کے موقع پر ایک سو اونٹ قربانی کرنے کا اعلان کیا،اگر ایک اونٹ کی قیمت ڈھائی لاکھ بھی لگائی جائے تو ایک سو کی قیمت بنتی ہے ڈھائی کروڑ،اتنے اونٹ قربان ہو گئے گورنر ہائوس میں کسی نے گوشت تک نہیں دیکھا، لوگوں کو افطار کروانا، ڈھائی کروڑ کے اونٹ قربان کرنا، پر کسی بھی صحافی نے یھ تک نہیں پوچھا کے گورنر ہائوس کی اتنی بجیٹ کہاں سے آئی؟ اگر اتنی بجیٹ ہوتی ہے تو ٹیسوری صاحب سے پہلے یھ پیسے کہاں جاتے تھے؟

میڈیا کی شہ سرخیوں میں خود کو زندہ رکھنے کے لیے گورنر نے اعلان کیا کہ کراچی میں وہ تین سو تندور لگائیں گے، ہر تندور پر دو روپے میں روٹی فروخت ہوگی، اب آپ اندازہ لگائیں کے جہاں عام تندور پر 25 روپے میں روٹی مل رہی ہے وہاں ہی بڑا رش ہوتا ہے تو دو روپے روٹی دینے والے تندور پر کیا حالت ہوگی؟ روٹی تو دور کی بات لائن میں کھڑے رہنے کے لیے ٹوکن تک ملنا بھی کسی معجزے سے کم نہیں ہوگا۔

خیر یھ روٹی تو سستے پیٹرول کی طرح عوام کو مل چکی، اب سوال یھ بنتا ہے کے گورنر صاحب اتنا بجٹ کہاں سے لائیں گے۔ ایک روٹی پر 20 روپے کی سبسڈی، ایک اندازے کے مطابق ایک تندور سے ایک ہزار روٹیاں بکتی ہیں، بیس روپے اہک روٹی پر نقصان سے ایک تندور بیس ھزار کا خسارہ کرے گا، دو وقت کی روٹی میں یھ چالیس ھزار کا خسارہ بنتا ہے، تین سو تندور کا خسارہ تو ایک دن میں ایک کروڑ بیس لاکھ بن جاتا یے اور روٹی تو لوگ کوئی ایک دو دن کھائے گا نہیں، جب تک مہنگائی یے تب تک یہ تندور چلنے چاھیے،تو اس حساب سے تین سو تندور کا ماھانا خرچ خسارا بنتا یے 50 کروڑ روپے،
گورنر نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ شروعات ہو گی اور مستقبل میں یہ تندور ایک ہزار بھی ہو سکتے ہیں۔اب آپ ہی سوچیں کہ ایسا ریلیف دینے کی پوزیشن میں نہ وفاقی حکومت ہے اور نہ صوبائی حکومت ہے، گورنر کہاں سے لائیں گے۔

اتنا بجٹ؟ تو مجھے نہیں معلوم کہ گورنر کے پاس کون سی معاشی ٹیم ہے جس نے یہ منصوبہ بنایا؟ بہرحال یہ ایک بڑا اعلان تھا لیکن گورنر میڈیا میں زندہ رہنے کے لیے اس قسم کے احمقانہ اعلانات کرتے رہے ہیں۔لگ بھگ اس اعلان کو ایک ماھ ہو چکا یے گورنر کا تندور کہیں دکھائی نہیں دے رہا، اگر آپ کو کہیں دکھائی دے تو ہمیں بھی بتا دی جئے گا۔

ایوانوں میں بیٹھے منتخب نمائندے قانون کے مطابق جھوٹ نہیں بول سکتے، قوم سے جھوٹ بولنا بھی جرم ہے، منتخب نمائندوں کو دیانت دار اور امانت دار ہونا چاہیے، اس لیے جب سے پیٹرول کے معاملے میں وہ دیانتدار یا قابل اعتماد نہیں رہے، گزشتہ چند دنوں سے وہ معاملات میں ایماندار اور قابل اعتماد نہیں رہے۔ مطلب کے نھ وہ اب صادق ہیں نھ ہی امین تو مقدس ایوان مہں کیا کر ریے یہں؟ اس لیے ایسے اعلانات نہ کریں، عوام کے جذبات سے نہ کھیلیں،عوام کی غریبی سے نھ کھیلیں، غربت کا مذاق نھ اڑائیں، لوگوں کو گمراہ کرنے سے گریز کریں، جھوٹی تسلیاں اور آسائشیں نہ دیں، وہ جھوٹی تسلیاں اور آسائشیں اگر آپ نہ دیں تو یہ بھی ہم عوام کو ایک طرح کا ریلیف ہی سمجھیں گے

اب ہم آتے ہیں سستے پیٹرول کی جانب جب پی ٹی آئی کی حکومت نے مسلسل قومی اور ملکی مفادات کے لیے پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ جاری رکھا تو انہوں نے کروڑوں روپے مزید خرچ کیے اور ایک اجلاس کا انعقاد کیا جس میں غریب عوام کو سستا پیٹرول دینے پر غور کیا گیا، اس سلسلے میں جتنے بھی اجلاس بلائے گئے اس میں اور بھی بہت سے اخراجات کیے گئے ہوں گے۔

پھر یہ فیصلہ کیا گیا کہ موٹرسائیکل سواروں کو آدھی رقم میں پیٹرول دیا جائے گا اور ایسے فیصلے کے بعد ذہین لوگوں نے سوال اٹھائے کہ یہ کیسے ممکن ہوگا کہ صرف موٹرسائیکل سواروں کو ہی سستا پیٹرول دیا جائے؟اس کو ممکن بنانے کے لیے کوئی راستھ یا نظام موجود نہیں تھا۔ لیکن اس ملک کے عوام حکومتی حوالوں، جھوٹ اور فریب سے خوش نظر آئے.

آخر کار اس فیصلے پر عمل درآمد نہ ہوا اور پی ٹی آئی کی حکومت نے پیٹرول کی قیمت 150 روپے پر چھوڑ کر ختم ہو گئی، اس وقت پی ڈی ایم نے اقتدار سنبھالا اور ان کو یھ 150 روپے پیٹرول کی قیمت بہت زیادہ محسوس لگنے لگی۔ انہوں نے عمران خان کو مسلسل عوام دشمن کہا اور کہا کہ ہم قیمت کم کریں گے، انہوں نے جو قیمت کم کی وہ آج آپ کے سامنے ہے۔

پھر یوں ہوا کے پی ڈی ایم سرکار آتے ہی عمران خان سے دو قدم آگے بڑھ گئی اور عوام کو وقتی سکون دینے کے لیے انہوں نے رلیف دینے کے بیانات ہی جاری کیئے ، عمران خان نے تو صرف موٹر سائیکل سواروں کے لیے پیٹرول سستا کرنے کا اعلان کیا تھا مگر انہوں نے پلس میں رکشا والوں کو بھی یھ رلیف دے دیا اور انہوں نے فخر محسوس کیا کے یھ اس سلسلے میں بھی عمران خان سے دو قدم آگے ہیں ، مطلب کے جھوٹ اور فریب میں بھی ہم کپتان سے پیچھے کیوں رہیں؟ ۔ انہوں نے یہ طریقہ کار بھی بنایا کہ کوٹا میں موٹرسائیکل کی روزانہ کی حد مقرر ہوگی، جس کے لیے کارڈ متعارف کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔لیکن اس وقت جب پیٹرول 250 روپے پر تھا تو انہوں نے یہ اعلان کیا، انہوں نے عوام کو ریلیف دینے کے لیے کچھ میٹنگز بھی کیں، جن پر کروڑوں روپے خرچ ہوئے ہوں گے، لیکن پھر یہ اعلان ادھورا رہ گیا اور لوگ ابھی تک انتظار کر رہے ہیں۔ ہمیں سستا پٹرول ضرور ملے گا،پر اس انتظار میں بیٹھی عوام کو اور مہنگا پیٹرول مل رہا ہے پتا نہیں وہ موٹرسائیکل اور رکشا والوں کو کون سی صدی میں سستا پیٹرول ملے گا؟

یہ تو تھا وہ سستا پیٹرول جو قوم کو اعلانات میں مل چکا، اس لیے اس سادہ لوح قوم کو سستا پیٹرول ملنے پر دو مرتبھ مبارکباد پیش کرتے ہیں، ایک بار کپتان نے ان کو سستا پیٹرول دیا اور دوسری مرتبہ پی ڈی ایم سرکار نے،

 

تحریر سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں


ماجد سموں سندھ کے سینیئر صحافی ہیں، وہ دو دہائی سے زیادہ عرصے سے میڈیا کا حصہ ہیں- انہیں مختلف موضوعات پر دسترس حاصل ہے، وہ سماجی، سیاسی اور معاشی مسائل پر گہری نظر رکھتے ہیں

 

تاریخی ادبی بورڈ کو مذہبی گادی بنانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی  

 

سیلاب متاثرین کراچی میں آباد ہو سکتے ہیں