سیلاب متاثرین کراچی میں آباد ہو سکتے ہیں

سیہون میں سیلاب متاثرین کو 11 ستمبر کو کھانا فراہم کیاجا رہا ہے، فوٹو: رائٹرز

ڈیڑھ دہائی قبل جب آزاد کشمیر میں زلزلہ آیا تو وہاں سے بڑی تعداد میں لوگ سندھ کے دارالحکومت کراچی منتقل ہوئے۔کراچی میں ایک بھی خیمہ نہیں لگایا گیا، نہ یہاں کوئی کیمپ لگایا گیا اور نہ ہی متاثرین کو کسی اسکول اور کالج میں ٹھہرایا گیا۔ ہمیں یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ وہ کہاں غائب ہو گئے؟ انہوں نے اپنے راستے خود ڈونڈھ لیے تھے، کرائے کے مکانات لئے اور ان میں سے 90 فیصد لوگ کراچی میں مستقل بنیادوں پر آباد ہو گئے اور اب سندھ کے دارالحکومت میں ان کی اپنی جائیدادیں ہیں۔

آپریشن ضرب عضب اور آپریشن رد الفساد ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، یہاں مہاجرین کے ٹرک بھرے ہوئے آئے اور کراچی میں وہ لوگ کہاں غائب ہو جاتے تھے ہمیں معلوم نہیں ہوتا تھا، تاہم تحقیقات کے بعد معلوم ہوا کہ یہ لوگ اپنے کارو بار شروع کرکے رینٹ پر گھر لیکر رہ رہے ہیں اور اور آج یہاں ان کی اپنی جائیدادیں بھی ہیں۔

نادرا کی بدولت ان کی شناخت بھی یہاں کی بن گئی اور اب وہ اپنی مرضی کا کوئی بھی ایم پی اور ایم این اے منتخب کر سکتے ہیں اور بہت سے منتخب بھی ہو گئے ہیں، اگر ان پر ایسی دوسری آفتیں آئیں تو وہ یہاں اپنا وزیر اعلیٰ بھی منتخب کر سکیں گے۔

اس وقت حالیہ بارشوں اور سیلابی صورتحال میں دھرتی کے ورثا کیمپوں میں موجود ہیں، جیسے کے وہ ورثا نہیں مہاجرین ہیں اور واپس چلے جائیں گے اور ان کی بھی یہی سوچ ہے کہ ہمیں واپس چلے جانا چاہیے لیکن کراچی میں جو لوگ ان لوگوں کی مالکی کر رہ ہیں، انہیں یہ مہم چلانی چاہئے کے ان سیلاب زدگان کو مستقل بنیادوں پر صوبائی دارالحکومت میں ہی رہنا چاپئے، کیوں کہ ان کے گھر تباہ ہو چکے ہیں، پانی خشک ہونے میں وقت لگے گا اور ان گھروں کو بنانے میں دگنا وقت لگے گا۔

صوبے کے سیلاب متاثرین کے لیے بنائی گئی رلیف کیمپوں میں جو عام لوگ اپنی جانب سے ان متاثرین کے لیے کھانے پینے کی اشیا کی فراہمی کرتے ہیں وہ بھی آخر کار کب تک دینگے؟ حکومت کا تو کوئی حال ہی نہیں کہ متاثرین کو کچھ دے پائے وہ خود امداد لینے کے چکر میں ہے، جیسے کے سیلاب میں حکومت ڈوب گئی ہو۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہےکہ سیلاب متاثرین کو تعلیمی اداروں میں رہائش دینے سے ایک اور نقصان ہو رہا ہے کہ یہ ادارے بند پڑے ہیں، اس لیے ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ان متاثرین کو مستقل طور پر کیسے رکھا جائے؟

یہ بھی پڑھیں: صوبے کے سیلاب متاثرین کو کراچی اور حیدرآباد میں آباد کیا جائے، فیصل ایدھی

ظاہر ہے یہ دیہات کے لوگ ہیں، وہاں بھی کوئی کام کاج کرتے ہونگے، ان کے پاس فنون بھی ہوں گے، تو کیمپوں میں کیوں بیٹھے ہیں؟

کراچی میں مستقل بسنا کوئی بڑا مسئلہ نہیں، جو لوگ یہاں آئے ہیں ان کے پاس گائے بکریاں ہیں، اگر ایک مویشی بیچا جائے تو وہ کم از کم ایک لاکھ روپے میں بک جائےگا، اس میں سے وہ کرائے کا گھر حاصل کرنے کے لیے 20,000 روپے ایڈوانس کے طور پر جب کہ 12 یا 15000 روپے تک کرائے کی مد میں دے کر اپنی مستقل رہائش اختیار کر سکتے ہیں۔

باقی رقم سبزیوں، پھلوں، یا کسی اور چھوٹے موٹے کاروبار میں لگا کر ایک فیملی سیٹ ہو سکتی ہے، جن کے پاس کچھ بھی نہیں ہے وہ اپنی فیملیز کو ایک دو ماہ رلیف کیمپ یا ٹینٹ سٹی میں بھیج دیں اور خود جو ان کے ساتھ مرد حضرات ہیں وہ کوئی ملازمت یا مزدوری وغیرہ پر نکل جائیں جب تک ان کے پاس رینٹ پر گھر لینے کی طاقت ہو جائے وہ اپنی فیملی رلیف کیمپ یا ٹینٹ سٹی سے شفٹ کر کے اپنے کرائے کے گھر میں منتقل کر دیں۔

یہ ایک آسان طریقا ہے کراچی میں مستقل سیٹل ہونے کا ہے، اس طرح سیلاب متاثرین کسی سرکاری امداد کے انتظار میں رہنے کے بجائے اپنے پاؤں پر خود کھڑے ہو پائیں گے۔

اس طرح جہاں ایک طرف اس سیلاب نے ہمیں نقصان پہنچایا ہے وہیں ہم مستقل طور پر کراچی میں رہ کر بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں کیونکہ کراچی کے بعض تعصب پسند عناصر نہیں چاہتے کہ یہ لوگ یہاں رہیں۔

یہ تعصبی لوگ اس سلسلے میں اتنا پریشان ہو ریے ہیں کے اتنا تو سیلاب متاثرین بھی نہیں ہیں جن کے مکانات اور ساری جائیدادیں ڈوب گئی ہیں، دھرتی باسیوں کو اپنی مدد آپ کے تحت اس موقع کو بہتر طور پر استعمال کرنا چاہیے، کیوں کہ صوبائی درالحکومت میں غیر ملکیوں کی طرح وہ بھی اپنی جائیدادیں بنا سکتے ہیں اور اپنے شہر کے وارث بن سکتے ہیں۔