نورین فاطمہ قتل کیس: مقتول لڑکی کے والد اور بھائی عدالت سے فرار

ضلع جامشورو کے نواحی شہر بھان سید آباد کے قریب غیرت کے نام پر قتل کی گئی نورین فاطمہ کے قتل میں نامزد ملزمان اور مقتولہ کے والد اور بھائی ضمانت کی درخواست مسترد ہونے پر عدالت سے فرار ہوگئے۔

نورین فاطمہ کو 16 مئی کو قتل کیا گیا تھا اور ابتدائی طور پر ان کے اہل خانہ نے اسے خودکشی کا واقعہ قرار دیا تھا۔
نورین فاطمہ کے قتل کے بعد سوشل میڈیا پر انسانی حقوق کے رہنمائوں اور صحافیوں نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سندھ پولیس نے ملزمان کو گرفتار کرکے انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا تھا۔

سیہون پولیس کا نورین فاطمہ کے قتل کا معمہ حل کرنے کا دعویٰ

نورین فاطمہ مہر نے کوٹڑی کے نوجوان کلاس فیلو منصور سومرو سے پسند کی شادی کر رکھی تھی۔

نورین فاطمہ کے قتل کے بعد منصور سومرو نے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو میں بتایا تھا کہ دونوں کی ملاقات 2015 میں یونیورسٹی میں ہوئی، جس کے بعد ان کے درمیان تعلقات استوار ہوئے اور دونوں نے 2021 میں پسند کی شادی کی۔

بعد ازاں منصور سومرو کی فریاد پر 19 مئی کو بھان سید آباد تھانے میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 سمیت دیگر دفعات کے تحت مقتولہ کے بھائی اور والد سمیت دیگر دو نامعلوم ملزمان کے خلاف درج کیا گیا تھا، جس کے بعد پولیس نے مقتولہ کے بھائی کو گرفتار کرلیا تھا، جنہوں نے دوران تفتیش اعتراف جرم کیا تھا اور وہ تاحال جیل میں ہیں۔

نورین فاطمہ کے قتل کا مقدمہ درج، بھائی گرفتار

مقدمے میں نورین فاطمہ کے والد اور چھوٹے بھائی سمیت ان کے چچا کو بھی نامزد کیا گیا تھا، جنہوں نے عدالت سے ضمانت کروا رکھی تھی اور 31 اگست کو ضمانت کی مدت پوری ہونے پر دونوں عدالت میں پیش ہوئے۔

سندھی نیوز چینل ٹائم نیوز کے مطابق نورین فاطمہ کیس کی سماعت جامشورو کی عدالت میں ہوئی، جہاں عدالت نے مقتولہ کے والد محمد علی مہر اور بھائی احسن مہر کی ضمانت کی درخواست مسترد کی، جس کے بعد دونوں ملزمان احاطہ عدالت سے فرار ہوگئے۔

سیہون کے قریب نوجوان لڑکی نورین فاطمہ بھائیوں کے ہاتھوں قتل