ریاست اور سیکیورٹی فورسز ماڑی جلبانی آپریشن کی ذمہ داری قبول کریں، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان

 ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے ضلع نوابشاہ کی تحصیل سکرنڈ کے قصبے ماڑی جلبانی میں پولیس اور رینجرز کی جانب سے کیے گئے آپریشن کی اپنی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریاست اور سیکیورٹی فورسز کے اداروں کو آپریشن کی ذمہ داری قبول کرکے مقتولین کے ورثا کو معاوضہ دینا چاہئیے۔

ماڑی جلبانی میں پولیس اور رینجرز نے 28 ستمبر کو مشترکہ آپریشن کیا تھا، جس دوران دیہاتیوں اور سیکیورٹی اہلکاروں کے درمیان تلخ کلامی ہونے پر فائرنگ کے واقعے میں چار دیہاتی ہلاک جب کہ 6 زخمی ہوگئے تھے۔

واقعے کے بعد پولیس اور رینجرز کے اہلکاروں پر مقدمہ بھی دائر کیا گیا تھا جب کہ پولیس نے دیہاتیوں پر سرکاری کام میں مداخلت کا مقدمہ دائر کیا تھا۔

واقعے پر سندھ حکومت نے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی تھی جب کہ پاکستان ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بھی اپنا فیکٹ فائنڈنگ مشن بنایا تھا، جس نے دو ہفتوں میں تحقیق کرکے اپنی رپورٹ جاری کردی۔

ایچ آر سی پی کے فیکٹ فائنڈنگ کمیشن نے ماڑی جلبانی واقعے پر 9 صفحات کی رپورٹ جاری کرتے ہوئے سیکیورٹی فورسز کے آپریشن میں سنگین غلطیوں کی نشاندہی کی اور ساتھ ہی واضح کیا کہ گائوں کی پوری تاریخ میں آج تک وہاں اس طرح کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔

ایچ آر سی پی کے فیکٹ فائنڈنگ مشن نے رپورٹ میں بدانتظامی، غلط فہمی اور کوتاہیوں کا انکشاف کیا ہے جس کی وجہ سے معصوم لوگ ہلاک ہوئے۔

سکرنڈ آپریشن: ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا تحقیق کا مطالبہ

ایچ آر سی پی نے رپورٹ کیا کہ 28 ستمبر کی سہ پہر شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز کے 24 سالہ طالب علم لیاقت جلبانی کو قانون نافذ کرنے والوں کی تحویل میں گاؤں لایا گیا۔

لیاقت جلبانی اس سے قبل کہاں تھا، اس حوالے سے کچھ معلوم نہیں تھا، مقامی لوگوں نے بتایا کہ اس کی شناخت چھپانے کے لیے اس کا چہرہ کپڑے سے ڈھانپ دیا گیا تھا۔

بعد میں پولیس نے ایچ آر سی پی کو بتایا کہ سیکورٹی فورسز نے اسے صرف اس لیے اٹھایا تھا تاکہ اسے گاؤں تک جانے میں مدد کے لیے بطور ’معاون‘ استعمال کیا جاسکے۔

سکرنڈ آپریشن کا مقدمہ قتل کی دفعات کے تحت دائر

ایک مقامی عینی شاہد مٹھل جلبانی نے بتایا کہ کچھ سادہ لباس اور کچھ پولیس و رینجرز کی وردیوں میں ملبوس تقریباً 60 سے 70 قانون نافذ کرنے والے اہلکار ایک عمارت میں داخل ہوئے جہاں دیہاتیوں نے عارضی گھر بنا رکھے تھے۔

انہوں نے مقامی لوگوں کو بتایا کہ وہ بجلی چوری میں ملوث لوگوں کی تلاش کر رہے ہیں، بغیر کسی وارننگ کے انہوں نے ایک شخص اللہ داد جلبانی کے گھر کی تلاشی لی، تلاشی کے دوران اللہ داد کے پڑوسی 35 سالہ سجاول جلبانی نے اہلکاروں کے ساتھ تلخ کلامی کی۔

سکرنڈ, ماڑی جلبانی آپریشن: جے آئی ٹی کا گاؤں کا دورہ

زبانی تکرار کے بعد سجاول جلبانی نے سیکیورٹی اہلکاروں کو للکارا، جواب میں متعدد گولیاں چلائی گئیں، تبادلے کے دوران 30 سالہ نظام دین سجاول جلبانی کو بچانے کے لیے آیا لیکن وہ بھی گولی لگنے سے ہلاک ہوگیا، اس کے بعد ہونے والی افراتفری کے دوران سیکیورٹی اہلکار شدید فائرنگ کی آڑ میں پیچھے ہٹ گئے، چھ دیگر دیہاتی بھی گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے۔

بعد ازاں گاؤں کے دو افراد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 30 سالہ سارنگ، 55 سالہ اللہ داد جلبانی، 32 سالہ امام دین اور علی نواز کو ہسپتال میں داخل کرایا گیا، سارنگ اور علی نواز کو طبی امداد دیے جانے کے بعد ڈسچارج کر دیا گیا

سکرنڈ آپریشن: گوٹھ ماڑی جلبانی کے 250 دیہاتیوں پر مقدمہ دائر

کمیشن نے اپنی رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ ریاست پاکستان اور حکومت سمیت سیکیورٹی فورسز کو واقعے کی ذمہ داری قبول کرکے مقتولین کے ورثا کو معاوضہ دیا جائے تاکہ ان کا درد کم ہوسکے۔

ساتھ ہی کمیشن نے صوبائی حکومت پر زور دیا کہ وہ جے آئی ٹی کے ذریعے ماڑی جلبانی کی شفاف تفتیش کے بعد ماورائے عدالت قتل میں ملوث ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی بھی کرے۔

سکرنڈ آپریشن: وزیرِ اعلٰی سندھ نے رپورٹ طلب کرلی، تحقیق کیلئے کمیٹی قائم