حیدرآباد میں ہندو سینیٹری ورکر پر مقدس کتاب کی بے حرمتی کا الزام
کشیدگی کے ہیش نظر علاقے میں پولیس نفری تعینات کردی گئی—فوٹو: ٹوئٹر
صوبے کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں ایک ہندو سینیٹر ورکر پر مقدس کتاب قرآن پاک کی بے حرمتی کے الزام کے بعد پولیس نے مقدمہ دائر کرکے سینیٹر ورکر اشوک کمار کو گرفتار کرلیا جب کہ واقعے کے بعد اشتعال پھیلانے کے الزام میں بھی پولیس نے 48 افراد کو گرفتار کرلیا، جنہیں عدالت نے ضمانت پر رہا کردیا۔
مقدس کتاب کی مبینہ بے حرمتی کا واقعہ 20 او 21 اگست کی درمیانی شب کو ہوا، جس کے بعد حیدرآباد کے مرکزی علاقے صدر میں حالات کشیدہ ہوگئے اور درجنوں افراد نے ایک رہائشی عمارت پر دھاوا بولا، جہاں رہنے والوں کی اکثریت ہندو برادری سے تعلق رکھتی ہے۔
He must be arrested for provoking people. https://t.co/FIpu9VLjz9
— Mir (Imam B.) (@ImamBuxIB) August 21, 2022
حیدرآباد کینٹ پولیس کے مطابق بلال ولد بندو خان عباسی کی مدعیت میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 245 اور 34 بی کے تحت مقدمہ درج کرکے عمارت کے ایک سینیٹری ورکر اشوک کو حراست میں لے لیا گیا، جسے سات روز کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔
کینٹ پولیس کے مطابق مقدمے کے مدعی بلال عباسی نے موقف اختیار کیا کہ ساتھ والی دکان کے مالک نبیل نے ان کو کہا کہ رابی پلازہ میں کوئی مسئلہ ہوا ہے جاکر دیکھو جس پر وہ محمد یاسین عباسی کے ساتھ رابی پلازہ گئے تو اس کے چوتھے فلور پر لفٹ کے پاس مقدس کتاب کے کچھ اوراق جلے ہوئے تھے۔
Paramilitary rangers and police saved the life of a Hindu sanitary worker, alleged of blasphemy, from mob in Hyderabad, second large city of Southern Sindh province
— Naimat Khan (@NKMalazai) August 21, 2022
انہوں نے وہاں موجود سینیٹری ورکر سے پوچھا کہ مقدس کتاب انہوں نے جلائی ہے، جس پر سینیٹری ورکر نے کوئی جواب نہیں دیا تو وہ جلے ہوئے اوراق اور سینیٹری ورکر کو لے کر تھانے پہنچے اور پولیس کے حوالے کر دیا، ساتھ ہی ملزم کے خلاف مقدمہ دائر کروایا گیا۔
مذکورہ واقعے کے بعد علاقے میں کشیدگی پھیل گئی اور بعض شر پسند افراد کی جانب سے لوگوں کو اکسانے پر وہاں درجنوں افراد ڈنڈوں سمیت جمع ہوگئے اور صدر کے علاقے میں موجود رابی پلازہ کے باہر جمع ہوگئے اور وہاں اسلامی نعرے لگاکر ہندو افراد کے خلاف نعرے بازی کی گئی۔
Hyderabad police dispersed a violent mob which was demanding handing over a Hindu sanitary worker accusing him of #blasphemy Police claims the sanitary worker was targeted because of a personal clash with a local resident pic.twitter.com/CnSFLNLqhH
— Mubashir Zaidi (@Xadeejournalist) August 21, 2022
درجنوں افراد کے جمع ہونے اور اقلیتی افراد کے خلاف نعرے بازی کیے جانے کے بعد شہر سمیت صوبے بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی، تاہم پولیس اور رینجرز نے بروقت کارروائی کرکے حالات کو قابو کرلیا اور بھیڑ سے 48 افراد کو امن و امان خراب کرنے کے الزام میں گرفتار کرلیا، جنہیں 22 اگست کو مقامی عدالت نے ضمانت پر رہا کردیا۔
حيدرآباد صدر واري علائقي ۾ ھڪ ھندو فيملي قرآن ساڙڻ جي الزام ھيٺ خدا خير ڪري وري ڪوئي مذھبي انتھاپسندي جو واقعو نه ٿئي pic.twitter.com/XGZTqYX2gz
— Halar Arijo (@halar_arijo) August 21, 2022
پولیس اور رینجرز نے جائے وقوع پر پہنچ کر مجمع کو توڑنے کے لیے لاٹھی چارج اور آنسوں گیس کا استعمال بھی کیا، اگرچہ حیدرآباد کے صدر والے علاقے میں پولیس نفری تعینات کردی گئی ہے، تاہم اس باوجود وہاں کشیدگی کا خدشہ ہے۔
اسی حوالے سے انگریزی اخبار ڈان نے بتایا کہ رابی پلازہ میں 30 رہائشی فلیٹ ہیں، جن میں سے زیادہ تر میں ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے افراد سالوں سے رہائش پذیر ہیں۔
هر ملڪ ۾ هڪ آر ايس ايس /آءِ ايس آءِ ايس موجود هجي ٿي#SindhisArePeacefulNation pic.twitter.com/5Lx6K46spn
— khalid hussain (@khalidkoree) August 21, 2022
اخبار کے مطابق مذکورہ واقعے کے بعد 21 اگست سے وہاں حالات کشیدہ ہیں اور پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے جب کہ رابی پلازہ کے دو منزلوں کو مکمل طور پر بند کرکے سیکیورٹی کے سخت انتطامات کیے گئے ہیں۔
علاوہ ازیں صدر کے علاقے میں موجود موبائل مارکیٹ کی پچاس فیصد دکانیں بھی ہندو برادری کے افراد چلاتے ہیں اور پورے علاقے میں ان کی اچھی خاصی آبادی ہے، جسے بعض تنگ نظر مسلمان اپنے لیے خطرہ سمجھنے لگے ہیں۔
یہ غازی بھائی کیفے صلاح حیدرآباد کے مالک ہیں۔جس بلڈنگ میں یہ رہتے ہیں وہان کئی ہندو بھی رہتے ہیں اُن کے گھروں کی نہ صرف اس شخص نے بلکے اس کی بیٹی نے بھی بڑی بہادری سے حفاظت کی اور ساتھ ہی تمام مسلمان بھائیوں سے درخواست کی الزامات پر اور کو نقصان نہ پہنچائیں پوری فیملی ہیرو ہے۔ pic.twitter.com/EYjGHFi4hY
— Sanjay Sadhwani (@sanjaysadhwani2) August 21, 2022
اندازے کے مطابق حیدرآباد میں مجموعی طور پر 25 لاکھ ہندو افراد بستے ہیں، جن میں حالیہ چند سالوں میں اضافہ ہوا ہے اور سندھ بھر سے ہندو لوگ نقل مکانی کرکے حیدرآباد منتقل ہوئے ہیں۔
مذکورہ واقعے کے بعد سندھ حکومت اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سیکیورٹی سخت کرنے اور ہندوئوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کی ہدایات بھی کی ہیں۔
بنیے صدر میں آکر قبضہ کر رہے ہیں یہاں پر جگہ لے رہے ہیں ۔ ساری جگہوں پر قبضہ کر رہے ہیں ان سے بدلہ لیا جائے جہاں پر بنیا نظر آئے اُس کو مارا جائے ہمارا حق بنتا ہے ان کو پکڑ ماریں ۔ہم ان کو جوتے لگائیں گے ماریں ورنہ آخرت میں ہم پکڑ میں آئیں گے https://t.co/4y9RwwEhju pic.twitter.com/SAsx1GFElf
— Sanjay Sadhwani (@sanjaysadhwani2) August 21, 2022