حیدرآباد میں ہندو سینیٹری ورکر پر مقدس کتاب کی بے حرمتی کا الزام

کشیدگی کے ہیش نظر علاقے میں پولیس نفری تعینات کردی گئی—فوٹو: ٹوئٹر

صوبے کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں ایک ہندو سینیٹر ورکر پر مقدس کتاب قرآن پاک کی بے حرمتی کے الزام کے بعد پولیس نے مقدمہ دائر کرکے سینیٹر ورکر اشوک کمار کو گرفتار کرلیا جب کہ واقعے کے بعد اشتعال پھیلانے کے الزام میں بھی پولیس نے 48 افراد کو گرفتار کرلیا، جنہیں عدالت نے ضمانت پر رہا کردیا۔

مقدس کتاب کی مبینہ بے حرمتی کا واقعہ 20 او 21 اگست کی درمیانی شب کو ہوا، جس کے بعد حیدرآباد کے مرکزی علاقے صدر میں حالات کشیدہ ہوگئے اور درجنوں افراد نے ایک رہائشی عمارت پر دھاوا بولا، جہاں رہنے والوں کی اکثریت ہندو برادری سے تعلق رکھتی ہے۔

 

حیدرآباد کینٹ پولیس کے مطابق  بلال ولد بندو خان عباسی کی مدعیت میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 245 اور 34 بی کے تحت مقدمہ درج کرکے عمارت کے ایک سینیٹری ورکر اشوک کو حراست میں لے لیا گیا، جسے  سات روز کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔

کینٹ پولیس کے مطابق مقدمے کے مدعی بلال عباسی نے موقف اختیار کیا کہ ساتھ والی دکان کے مالک نبیل نے ان کو کہا کہ رابی پلازہ میں کوئی مسئلہ ہوا ہے جاکر دیکھو جس پر وہ محمد یاسین عباسی کے ساتھ رابی پلازہ گئے تو اس کے چوتھے فلور پر لفٹ کے پاس مقدس کتاب کے کچھ اوراق جلے ہوئے تھے۔

 

 

انہوں نے وہاں موجود سینیٹری ورکر سے پوچھا کہ مقدس کتاب انہوں نے جلائی ہے، جس پر سینیٹری ورکر نے کوئی جواب نہیں دیا تو وہ جلے ہوئے اوراق اور سینیٹری ورکر کو لے کر تھانے پہنچے اور پولیس کے حوالے کر دیا، ساتھ ہی ملزم کے خلاف مقدمہ دائر کروایا گیا۔

مذکورہ واقعے کے بعد علاقے میں کشیدگی پھیل گئی اور بعض شر پسند افراد کی جانب سے لوگوں کو اکسانے پر وہاں درجنوں افراد ڈنڈوں سمیت جمع ہوگئے اور صدر کے علاقے میں موجود رابی پلازہ کے باہر جمع ہوگئے اور وہاں اسلامی نعرے لگاکر ہندو افراد کے خلاف نعرے بازی کی گئی۔

 

درجنوں افراد کے جمع ہونے اور اقلیتی افراد کے خلاف نعرے بازی کیے جانے کے بعد شہر سمیت صوبے بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی، تاہم پولیس اور رینجرز نے بروقت کارروائی کرکے حالات کو قابو کرلیا اور بھیڑ سے 48 افراد کو امن و امان خراب کرنے کے الزام میں گرفتار کرلیا، جنہیں 22 اگست کو مقامی عدالت نے ضمانت پر رہا کردیا۔

 

 

پولیس اور رینجرز نے جائے وقوع پر پہنچ کر مجمع کو توڑنے کے لیے لاٹھی چارج اور آنسوں گیس کا استعمال بھی کیا، اگرچہ حیدرآباد کے صدر والے علاقے میں پولیس نفری تعینات کردی گئی ہے، تاہم اس باوجود وہاں کشیدگی کا خدشہ ہے۔

اسی حوالے سے انگریزی اخبار ڈان نے بتایا کہ رابی پلازہ میں 30 رہائشی فلیٹ ہیں، جن میں سے زیادہ تر میں ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے افراد سالوں سے رہائش پذیر ہیں۔

 

اخبار کے مطابق مذکورہ واقعے کے بعد 21 اگست سے وہاں حالات کشیدہ ہیں اور پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے جب کہ رابی پلازہ کے دو منزلوں کو مکمل طور پر بند کرکے سیکیورٹی کے سخت انتطامات کیے گئے ہیں۔

علاوہ ازیں صدر کے علاقے میں موجود موبائل مارکیٹ کی پچاس فیصد دکانیں بھی ہندو برادری کے افراد چلاتے ہیں اور پورے علاقے میں ان کی اچھی خاصی آبادی ہے، جسے بعض تنگ نظر مسلمان اپنے لیے خطرہ سمجھنے لگے ہیں۔

 

اندازے کے مطابق حیدرآباد میں مجموعی طور پر 25 لاکھ ہندو افراد بستے ہیں، جن میں حالیہ چند سالوں میں اضافہ ہوا ہے اور سندھ بھر سے ہندو لوگ نقل مکانی کرکے حیدرآباد منتقل ہوئے ہیں۔

مذکورہ واقعے کے بعد سندھ حکومت اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سیکیورٹی سخت کرنے اور ہندوئوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کی ہدایات بھی کی ہیں۔